امریکی اخبارات سے: امریکہ ایران تعلقات

ایرانی صدر

ایک امریکی عہدہ دار کے حوالے سے، اخبار ’وال سٹریٹ جرنل‘ نے بتایا ہے کہ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ ایران اس معاملے میں کس قدر سنجیدہ ہے
امریکہ اور ایران کے باہمی تعلقات میں متوقع تبدیلی کے بارے میں امریکی اخبارات میں برابر قیاس آرائیاں ہو رہی ہیں۔ ’وال سٹریٹ جرنل‘ کی رپورٹ ہے کہ پیر کے روز امریکہ اور ایران کے مابین اعلیٰ ترین سطح پر صلاح مشورہ کرنے کا منصوبہ طے پایا ہے، جس سے محتاط انداز میں توقّعات پیدا ہو رہی ہیں کہ ایک عشرے پر مُحیط دھمکیوں اور تعطّل کی شکار سفارت کاری کے بعد، شائد ایران کے جوہری پروگرام پر روک لگانے میں پیش رفت ہو سکتی ہے۔

چنانچہ، اقوام متحدہ میں جمعرات کے روز ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف کی امریکی وزیر خارجہ جان کیری اور اُن پانچ بڑی طاقتوں کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ملاقات طے پائی ہے، جن کے ایران کے ساتھ اُس کے جوہری پروگرام پر مذاکرات چل رہے ہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ ایران کی سفارت کاری جو خوشگوار تبدیلی آئی ہے، وُہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ اُس کی تباہ حال معیشت نے اُس کی خارجہ پالیسی کا رنگ بدل دیا ہے۔ یہ ممکن ہو گیا ہے کہ صدر اوبامہ اور نئے ایرانی صدر حسن روحانی کے مابین ملاقات ہو، جنہوں نے مغرب کے ساتھ مصالحت کو فروغ دینے کے لئے ایک سفارتی مہم کا آغاز کیا ہے، تاکہ اپنے ملک کو سنگین اقتصادی تعزیرات سے ہونے والے نقصانات سے نجات دلا سکیں۔

وہائٹ ہاؤس کی طرف سے بھی کہا جا چُکا ہے کہ ایرانی اور امریکی لیڈروں کے مابین ملاقات کی راہ کُھلی ہوئی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ، امریکی اور یورپی لیڈر ماضی کی ناکام کوششوں کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ انہیں جوہری معاملے پر مذاکرات کے لئے ایران کی آمادگی پر احتیاط برتنی ہوگی۔ اور وُہ غور سے دیکھیں گے کہ آیا مسٹر ظریف اپنے پیش رؤوں کے مقابلے میں جوہری امور پر زیادہ ٹھوس مذاکرات کے لئے تیار ہونگے۔

اخبار نے ایک امریکی عہدہ دار کے حوالے سے بتایا ہے کہ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ ایران اس معاملے میں کس قدر سنجیدہ ہے۔


حالیہ ہفتوں کے دوران صدر روحانی اور وزیر خارجہ ظریف دونوں مغربی ذرائع ابلاغ کو انٹرویو دیتے آئے ہیں، اور سوشیل میڈیا سائٹس پر مضامین لکھتے آئے ہیں۔ مسٹر ظریف، جو جوہری امور پر اپنے ملک کے اعلیٰ مذاکرات کار بھی ہیں، اقوام متحدہ میں برطانیہ، اٹلی، اور ہالینڈ کے وزرائے خارجہ کے ساتھ ملاقاتوں میں اس بات پر زور دیتے آئے ہیں کہ تہران جوہری بُحران کو جلد سے جلد سُلجھانے میں سنجیدہ ہے۔

اخبار ’یو ایس اے ٹوڈے‘ کہتا ہے کہ وہائٹ ہاؤس تصدیق کر چکا ہے کہ جمعرات کے روز امریکی وزیر خارجہ جان کیری چھ اور بڑی طاقتوں کے وزرائے خارجہ کے ہمراہ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے ساتھ ایک ملاقات میں ایرانی جوہری پروگرام پر بات چیت کریں گے۔

34 سال قبل ایران میں شاہ رضا شاہ پہلوی کی بادشاہت کا تختہ اُلٹے جانے کے بعد امریکی اور ایرانی عہدہ داروں کے درمیان یہ پہلی دُوبدُو ملاقات ہوگی۔ اور اوبامہ کا یہ فیصلہ اگست میں نئے ایرانی صدر کے عہدہ سنبھالنے پر دونوں صدور کے درمیان خطوط کے تبادلے کے بعد آیا ہے۔

مسٹر اوبامہ نے مسٹر روحانی کے مصالحانہ بیانات پر محتاط رجائیت کا اظہار کیا تھا۔ اور پچھلے ہفتے مسٹر اوبامہ نے اعلان کیا تھا کہ اُن کا منشا ہے کہ ایران کے بارے میں جو شکایات ہیں، اُسے انہیں اس طور پر دُور کرنا ہوگا، تاکہ وہ بین الاقوامی برادر ی میں دوبارہ شامل ہو سکے۔۔


اسی موضوع پر، ’شکاگو ٹربیون‘ ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ ایسے شواہد ہیں کہ امریکہ اور یورپی اتحاد کی طرف سے لگائی گئی اقتصادی تعزیرات نے ایران کی کمر توڑ دی ہے۔ ایران کی تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی اور اُس کی کرنسی کی قیمت گر گئی ہے۔ افراط زر اور بے روزگاری میں اضافہ ہو رہاہے اور جوانوں میں خاص طور پر اضطراب پھیل رہاہے۔ ملک عملی طور پر بینکنگ کے بین الاقوامی نظام سے کٹ کر رہ گیا ہے۔

اخبار کے خیال میں، اس صورت حال کی رجائیت پسندانہ توجیہ یہی ہو سکتی ہے کہ ایران کو اس کا اندازہ ہے کہ ان تعزیرات سے اُس کا گلا گھونٹا جارہا ہے، اور جوہری عزائم کو حاصل کرنے کی قیمت حد سے زیادہ ہے۔ لہذا، مصلحت سے کام لینے میں ہی بہتری ہے۔

لیکن، اخبار کہتا ہے کہ ایران کی طرف سے آنے والی مصالحت کی پیش کش پر غور کرتے وقت ایسا نہ ہو کہ محض تعاون کے وعدے کی بنیاد پر تعزیرات ہٹادی جائیں۔