مشرّف کے خلاف یہ الزام ہے کہ سنہ 2007 میں انہوں نے آئین کو معطّل کر دیا تھا، ہنگامی حالات کا اعلان کیا تھا اور عدلیہ کے بیشتر ارکان کو فارغ کر دیا تھا۔ ادھر، مقدمے کے حوالے سے، تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں ایک نیا سیاسی خلفشار پیدا ہو سکتا ہے
واشنگٹن —
حکومت پاکستان نے سابق فوجی حکمران پرویز مشرّف پر بغاوت کا مقدّمہ چلانے کا جو اعلان کیا ہے، اُس پر ’نیو یارک ٹائمز‘ کہتا ہے کہ یہ اقدام پاکستان کی طاقت ور فوج پر سوِل انتظامیہ کی فوقیت منوانے کا ایک قدم ہوگا۔
ملک کے وزیر داخلہ نے جنرل مشرف کے مقدّمے کے لئے سپریم کورٹ سے ایک تین رکنی بینچ تشکیل دینے کی درخواست کی ہے۔ مشرّف کے خلاف یہ الزام ہے کہ سنہ 2007 میں انہوں نے آئین کو معطّل کر دیا تھا، ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا تھا اور عدلیہ کے بیشتر ارکان کو فارغ کر دیا تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ پاکستان کی 66 سالہ تاریخ میں بیشتر وقت فوج کی حکمرانی رہی ہے، اور جنرل مشرّف کی اپریل کے مہینے میں جلاوطنی سے وطن واپسی سے قبل کسی بھی اعلیٰ فوجی کمانڈر کے خلاف فوجداری مقدّمہ قائم نہیں ہوا ہے۔
اس کے بعد سے انہیں کئی دوسرے فوجداری مقدّمات کا بھی سامنا رہا ہے۔ لیکن، بغاوت کا مقدّمہ قائم ہونے سے سول اور فوجی لیڈروں کے مابین داؤ پر لگے ہوئے امُور میں بُہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔ بغاوت کے الزام پر پھانسی کی سزا ہو سکتی ہے۔ اور تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں ایک نیا سیاسی خلفشارپیدا ہو سکتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ جنرل مشرّف کے خلاف یہ نیا فیصلہ ایک ایسے وقت آیا ہے جب نواز شریف کی حکومت کڑے وقت سے گذر رہی ہے، اور وہ معیشت، امور خارجہ اور سیکیورٹی کے معاملات سے جس طرح نمٹ رہی ہے، اس پر ان کے بار بار کے بیرونی دوروں پر بھی کڑی تنقید ہو رہی ہے۔
اخبار کی نظر میں یہ واضح ہے کہ نواز شریف کی حکومت نہیں چاہتی کہ جنرل مشرّف جو اپنے گھر میں نظربند تھے، پاکستان سے بھاگ جائیں اور ان پر مقدّمہ چلانے کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے، جب فوج تبدیلی کے دور سے گذر رہی ہے۔ موجودہ فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اسی ماہ کے اواخر تک ریٹائر ہو رہے ہیں، جب کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی دسمبر میں ریٹائر ہونے والے ہیں، اور اگر نواز شریف پاکستان کی اس پاؤر پالِٹکس کے عبوری دور کا فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں، تو بہت سے لوگ ا نتباہ کرتے ہیں کہ اس سے الٹا نتیجہ برآمد ہوگا۔
اخبار نے معروف دفاعی تجزیہ کار، حسن عسکری رضوی کے حوالے سے بتایا ہے کہ جس قسم کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ اس میں فوج کی عداوت سمیت کئی خطرے ہیں۔
مسٹر رضوی حکومت کی کارکردگی کو نہائت ناقص قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پچھلے پانچ چھ ماہ میں افراط زر اور بجلی کی مسلسل کمیابی نے عام آدمی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
ایک اور دفاعی تجزیہ کار، ریٹائرڈ جنرل طلعت مسعود کے حوالے سے اخبار کہتا ہے کہ ایسے میں جب فوج قبائیلی علاقے میں مصروف ہے اور کراچی اور اب راولپنڈی میں امن بر قرار رکھنے کے لئے لگائی گئی ہے، تو حکومت بغاوت کا یہ مقدّمہ کھڑا کرنے سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے، وہ کیا پیغام بھیج رہی ہے۔
صدر اوبامہ نے اپنے صحت عامّہ کی نگہداشت کے نئے قانون کی ویب سائٹ کے نقائص کو دور کرنے کا جو وعدہ کیا ہے اس پر اخبار ’بالٹی مور سن‘ کہتا ہے کہ اب تک اس ویب سائٹ کے ٹھیک طور پر نہ چلنے کی وجہ سے صدر اوبامہ کو بھی ماننا پڑا ہے کہ اس سے اُن ڈیموکریٹوں پر جو اس قانوں کی حمائت کرتے ہیں، بھاری سیاسی بوجھ پڑ گیا ہے۔
اور اخبار کہتا ہے کہ اس کے بعد، رائے عامّہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر اور اُن کی پارٹی پر ووٹروں کا اعتماد جاتا رہا ہے۔ قطع نظر اس حقیقت کے کہ بعض مسائیل کو حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کیا جار ہا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اوبامہ کے صحت عامّہ کی نگہداشت کے اس قانون میں عیب ضرور ہیں۔ لیکن، اس کے باوجود اس کے جو متبادل اب تک سامنے آئے ہیں، یہ قانون اُن سے کہیں بہتر ہے۔
اسی موضوع پر ’نیو یارک ٹائمز‘ ایک خصوصی ادارئے میں کہتا ہے کہ ایسے میں جب امریکی صحت عامّہ کی نگہداشت کے طریقوں میں بہتری لانے کی کوشش میں مصروف ہیں، کامن ویلتھ فنڈ نامی تحقیقی ادارے نے ایک بین الاقوامی سروے کے نتائج جاری کئے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تبدیلی لانا کیوں ضروری ہے۔ اور جس کے مطابق، جہاں تک صحت عامہ پر آنے والی لاگت، علاج تک رسائی، اور صحت کے بیمے کے مسائیل سے نمٹنے کا تعلّق ہے امریکہ دس دوسرے ترقّی یافتہ ملکوں سے پیچھے ہے، جن میں آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس، جرمنی، برطانیہ، سویڈن، سوٹزرلینڈ شامل ہیں۔ اور جنھوں نے کئی عشرے قبل اپنے تقریباً پُورے عوام کے لئے صحت کی نگہداشت تک رسائی ممکن بنادی ہے۔ اس کے مقابلے میں، امریکہ ان میں سے کسی بھی ملک کے مقابلے میں فی کس بنیاد پر کہیں زیادہ خرچ کرتا ہے۔
لیکن، اس کے باوجود پچھلے ایک سال کے دوران،37 فی صد امریکی بالغوں کو یا تو اس نگہداشت تک رسائی حاصل نہیں یا انہوں نے کبھی ڈاکٹر سے مشورہ نہیں کیا ہے، یا پھر مہنگی دوا نہیں خریدی، برطانیہ میں ایسے لوگوں کا تناسب چار فی صد ہے اور سویڈن میں چھ فی صد۔ یہاں تک کہ ناقص انشورنس کی وجہ سےکئی امریکیوں نے اس لاگت کے ڈر سے استفادہ ہی نہیں کیا۔ پھر، امریکہ کے انشورنش کا نظام اتنا پیچیدہ ہے۔ 32 فی صد صارفین کاغذی کاروائیوں پر یا متنازعہ بلوں کی ادائیگی حاصل کرنے پر وقت ضائع کرتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ انہیں مسائیل سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے صدر اوبامہ صحت کی نگہداشت کا قانون بنایا گیا تھا، جس کا ایک مقصد ایسے کروڑوں افراد کو صحت کا بیمہ فراہم کرنا بھی تھا جن کے لئے اس کا حصول اب تک ناممکن تھا۔
ملک کے وزیر داخلہ نے جنرل مشرف کے مقدّمے کے لئے سپریم کورٹ سے ایک تین رکنی بینچ تشکیل دینے کی درخواست کی ہے۔ مشرّف کے خلاف یہ الزام ہے کہ سنہ 2007 میں انہوں نے آئین کو معطّل کر دیا تھا، ہنگامی حالات کا اعلان کر دیا تھا اور عدلیہ کے بیشتر ارکان کو فارغ کر دیا تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ پاکستان کی 66 سالہ تاریخ میں بیشتر وقت فوج کی حکمرانی رہی ہے، اور جنرل مشرّف کی اپریل کے مہینے میں جلاوطنی سے وطن واپسی سے قبل کسی بھی اعلیٰ فوجی کمانڈر کے خلاف فوجداری مقدّمہ قائم نہیں ہوا ہے۔
اس کے بعد سے انہیں کئی دوسرے فوجداری مقدّمات کا بھی سامنا رہا ہے۔ لیکن، بغاوت کا مقدّمہ قائم ہونے سے سول اور فوجی لیڈروں کے مابین داؤ پر لگے ہوئے امُور میں بُہت زیادہ اضافہ ہو جائے گا۔ بغاوت کے الزام پر پھانسی کی سزا ہو سکتی ہے۔ اور تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہے کہ ملک میں ایک نیا سیاسی خلفشارپیدا ہو سکتا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ جنرل مشرّف کے خلاف یہ نیا فیصلہ ایک ایسے وقت آیا ہے جب نواز شریف کی حکومت کڑے وقت سے گذر رہی ہے، اور وہ معیشت، امور خارجہ اور سیکیورٹی کے معاملات سے جس طرح نمٹ رہی ہے، اس پر ان کے بار بار کے بیرونی دوروں پر بھی کڑی تنقید ہو رہی ہے۔
اخبار کی نظر میں یہ واضح ہے کہ نواز شریف کی حکومت نہیں چاہتی کہ جنرل مشرّف جو اپنے گھر میں نظربند تھے، پاکستان سے بھاگ جائیں اور ان پر مقدّمہ چلانے کا فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا ہے، جب فوج تبدیلی کے دور سے گذر رہی ہے۔ موجودہ فوجی سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اسی ماہ کے اواخر تک ریٹائر ہو رہے ہیں، جب کہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری بھی دسمبر میں ریٹائر ہونے والے ہیں، اور اگر نواز شریف پاکستان کی اس پاؤر پالِٹکس کے عبوری دور کا فائدہ اُٹھانا چاہتے ہیں، تو بہت سے لوگ ا نتباہ کرتے ہیں کہ اس سے الٹا نتیجہ برآمد ہوگا۔
اخبار نے معروف دفاعی تجزیہ کار، حسن عسکری رضوی کے حوالے سے بتایا ہے کہ جس قسم کا راستہ اختیار کیا جا رہا ہے۔ اس میں فوج کی عداوت سمیت کئی خطرے ہیں۔
مسٹر رضوی حکومت کی کارکردگی کو نہائت ناقص قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ پچھلے پانچ چھ ماہ میں افراط زر اور بجلی کی مسلسل کمیابی نے عام آدمی کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
ایک اور دفاعی تجزیہ کار، ریٹائرڈ جنرل طلعت مسعود کے حوالے سے اخبار کہتا ہے کہ ایسے میں جب فوج قبائیلی علاقے میں مصروف ہے اور کراچی اور اب راولپنڈی میں امن بر قرار رکھنے کے لئے لگائی گئی ہے، تو حکومت بغاوت کا یہ مقدّمہ کھڑا کرنے سے کیا حاصل کرنا چاہتی ہے، وہ کیا پیغام بھیج رہی ہے۔
صدر اوبامہ نے اپنے صحت عامّہ کی نگہداشت کے نئے قانون کی ویب سائٹ کے نقائص کو دور کرنے کا جو وعدہ کیا ہے اس پر اخبار ’بالٹی مور سن‘ کہتا ہے کہ اب تک اس ویب سائٹ کے ٹھیک طور پر نہ چلنے کی وجہ سے صدر اوبامہ کو بھی ماننا پڑا ہے کہ اس سے اُن ڈیموکریٹوں پر جو اس قانوں کی حمائت کرتے ہیں، بھاری سیاسی بوجھ پڑ گیا ہے۔
اور اخبار کہتا ہے کہ اس کے بعد، رائے عامّہ کے جائزوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ صدر اور اُن کی پارٹی پر ووٹروں کا اعتماد جاتا رہا ہے۔ قطع نظر اس حقیقت کے کہ بعض مسائیل کو حد سے زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان کیا جار ہا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ اوبامہ کے صحت عامّہ کی نگہداشت کے اس قانون میں عیب ضرور ہیں۔ لیکن، اس کے باوجود اس کے جو متبادل اب تک سامنے آئے ہیں، یہ قانون اُن سے کہیں بہتر ہے۔
اسی موضوع پر ’نیو یارک ٹائمز‘ ایک خصوصی ادارئے میں کہتا ہے کہ ایسے میں جب امریکی صحت عامّہ کی نگہداشت کے طریقوں میں بہتری لانے کی کوشش میں مصروف ہیں، کامن ویلتھ فنڈ نامی تحقیقی ادارے نے ایک بین الاقوامی سروے کے نتائج جاری کئے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تبدیلی لانا کیوں ضروری ہے۔ اور جس کے مطابق، جہاں تک صحت عامہ پر آنے والی لاگت، علاج تک رسائی، اور صحت کے بیمے کے مسائیل سے نمٹنے کا تعلّق ہے امریکہ دس دوسرے ترقّی یافتہ ملکوں سے پیچھے ہے، جن میں آسٹریلیا، کینیڈا، فرانس، جرمنی، برطانیہ، سویڈن، سوٹزرلینڈ شامل ہیں۔ اور جنھوں نے کئی عشرے قبل اپنے تقریباً پُورے عوام کے لئے صحت کی نگہداشت تک رسائی ممکن بنادی ہے۔ اس کے مقابلے میں، امریکہ ان میں سے کسی بھی ملک کے مقابلے میں فی کس بنیاد پر کہیں زیادہ خرچ کرتا ہے۔
لیکن، اس کے باوجود پچھلے ایک سال کے دوران،37 فی صد امریکی بالغوں کو یا تو اس نگہداشت تک رسائی حاصل نہیں یا انہوں نے کبھی ڈاکٹر سے مشورہ نہیں کیا ہے، یا پھر مہنگی دوا نہیں خریدی، برطانیہ میں ایسے لوگوں کا تناسب چار فی صد ہے اور سویڈن میں چھ فی صد۔ یہاں تک کہ ناقص انشورنس کی وجہ سےکئی امریکیوں نے اس لاگت کے ڈر سے استفادہ ہی نہیں کیا۔ پھر، امریکہ کے انشورنش کا نظام اتنا پیچیدہ ہے۔ 32 فی صد صارفین کاغذی کاروائیوں پر یا متنازعہ بلوں کی ادائیگی حاصل کرنے پر وقت ضائع کرتے ہیں۔
اخبار کہتا ہے کہ انہیں مسائیل سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے صدر اوبامہ صحت کی نگہداشت کا قانون بنایا گیا تھا، جس کا ایک مقصد ایسے کروڑوں افراد کو صحت کا بیمہ فراہم کرنا بھی تھا جن کے لئے اس کا حصول اب تک ناممکن تھا۔