امریکی اخبارات سے: تحریک تحفظ پاکستان

فائل

’کرسچن سائینس مانٕٹر‘ مبصّرین کے حوالے سے کہتا ہے کہ تحریک تحفّظ پاکستان نامی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی نئی پارٹی مُلک کے اندر تبدیلی کی اُمنگ کی ترجمانی کرتی ہے
پاکستان کے نامور سائینس دان اور اُس کے جوہری بم کے باوا ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے ایک نئی سیاسی پارٹی کے قیام اور اگلے عام انتخابات لڑنے کا جو اعلان کیا ہے اُس پر ’کرسچن سائینس مانٕٹر‘ مبصّرین کے حوالے سے کہتا ہے کہ تحریک تحفّظ پاکستان نامی اُن کی نئی پارٹی مُلک کے اندر تبدیلی کی اُمنگ کی ترجمانی کرتی ہے۔

اور جیسا کہ معروف تجزیہ کار عایشہ صدّیقہ کہتی ہیں, امریکہ میں اوبامہ جس طرح ایک تبدیلی کے نقیب تھے اُسی طرح ڈاکٹر عبدالقدیر خاں اور تحریک انصاف کے عمران خان جیسے لوگ پاکستان میں ایک احیائے نو کی عوامی خواہش کی نمایندگی کرتے ہیں۔


اخبار کہتا ہے کہ پاکستان میں قدیر خاں کو ایک قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہے، کیونکہ اُنہوں نے پاکستان کو ایک جوہری طاقت بنانے میں کردار ادا کیا۔ لیکن، اُن پر یہ الزام بھی ہے کہ انہوں نے لبیا، ایران اور شمالی کوریا کو جوہری تحقیق کے راز فراہم کئے، جس کا سنہ 2004 کے ایک ٹی وی انٹرویو میں انہوں نے اقبال بھی کیا۔اگرچہ بعد میں اُن کا موقّف تھا کہ اس وقت کے صدر جنرل مشرف نے اُنہیں ایسا کرنے پر مجبور کیا تھا۔

اخبار کہتا ہے کہ انہوں نے کہُوٹہ میں وکیلوں کے ایک اجلاس میں کہا تھا کہ جوہری پھیلاؤ کے بارے میں اُن کے خلاف الزامات بے بنیاد تھے، البتہ اُنہوں نے یہ بھی کہا کہ انہوں نے پاکستانی حکّام کو جتا دیا ہےکہ جوہری ٹیکنالوجی میری ہے اور میں جسے چاہوں یہ ٹیکنالوجی دے سکتا ہوں۔

اخبار نے بعض ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ڈاکٹر قدیر خان کی سیاست میں شمولیت کو فوج کی پُشت پناہی حاصل ہے جب کہ کُچھ اور اس کو اُن کی فوج کے ساتھ ایک طرح کی مصالحت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، تاکہ اُن کا منہ بند ہو۔

اخبار کہتا ہے کہ پاکستان کے جوہری سائینس دان پروفیسر پرویز ہُودھ بھائے کے بقول قدیر خان اپنی ٹوپی سے خرگوش برآمد کرلیتے ہیں، جب بھی وُہ اُن فوجی جنرلوں کا نام لیتے ہیں جن کو انہوں نے شمالی کوریا کا پیسہ رشوت کےطور پر دیا تھا۔ چنانچہ، اُن کے بقول، فوج کی ترجیح یہی ہے کہ وُہ سیاست میں اُلجھے رہیں ۔

تبصرہ نگار عایشہ صدیقہ نے اسے ایک نئی سامنتیت سے تعبیر کیا ہےجسے ملک کے سیکیورٹی کے ارباب اختیار نے مروّج کیا ہے ، تاکہ ایسے چہروں کو جواز کا درجہ نصیب ہو جن پر ماضی میں بد نامی کا بٹہ لگ چُکا ہے۔ ان میں قدیر خان کے علاوہ ایک خیراتی ادارے کے سربراہ حافظ سعید شامل ہیں، جن پر ہندوستان کا الزام ہے کہ ممبئی پر دہشت گردانہ حملوں کے پیچھے اُن ہی کا ہاتھ تھا۔

’ کرسچن سائینس مانٹر‘ کہتا ہے کہ بین الاقوامی مبصّرین محسوس کرتے ہیں کہ سیاست میں قدیرخان کے داخلے سے پاکستان کے اعتبار پر اور ایک جوہری ریاست کی حیثیت کے بارے میں شُبہات کی طویل فہرست میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔

جارج ٹاؤن یونیورسٹی واشنگٹن کی ایک پاکستانی ماہر کرسٹین فئیر کی رائے ہے کہ مسٹر قدیر خان ایک مُجرم کے برتا ؤ کے مستحق ہیں لیکن گھر میں نظر بندی کے بعد وُہ عیش وعشرت کے دن بتا رہے ہیں، اخباروں میں کالم لکھتے ہیں اور مقبول عام شخصیت کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ لیکن، ان کی رائے ہے کہ ان کا سیاست میں موثّر ہونا مشکوک بات ہے۔

سنہ 2012 کے صدارتی انتخابات میں مار کھانے کے بعد ری پبلکن پارٹی اب کس مرحلے سے گُذر رہی ہے۔

’انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹربیون‘ کے ایک تجزئے کے مطابق کمزور معیشت کے باوجود مسٹر اوبامہ کا دوبارہ منتخب ہونا، ری پبلکنوں کے لئے کئی سوالات پیدا کرتا ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ ڈیموکریٹوں کو ایک وقت اندیشہ تھاکہ سینیٹ میں وُہ اپنی اکثریت کھو بیٹھیں گے۔ لیکن حقیقت میں ہوا یہ کہ انہیں وہاں ایک اضافی نشست ملی جب کہ ایوان نمائندگاں میں بھی انہیں مزید چار نشستیں حاصل ہوئیں ۔ ریاستی قانون سا ز اداروں میں بھی اُن کی نشستوں میں اضافہ ہوا۔ اس کے برعکس، ری پبلکنز صدارتی انتخابات میں نہ صرف مجموعی ووٹوں اور الیکٹورل کالج میں صدر سے یپچھے رہ گئے ، بلکہ وُہ تقریباًاُن تمام ریاستوں میں ہار گئے جہاں مقابلہ سخت تھااور سنہ 2008 کے مقابلے میں اس وقت کے ری پبلکن امید وار جان میکین کے مقابلے میں موجودہ سال کے امید وار مٹ رامنی کو بیس لاکھ ووٹ کم ملے۔

’واشنگٹن پوسٹ‘ کے کالم نگار ای جے ڈیون کہتے ہیں کہ ہر انتخاب کے بعد عام طور پر کہا جاتا ہے کہ کامیاب پارٹی کو سیاست کو بالائے طااق رکھتے ہوئے ملک کے بھلے کے لئے کام کرنا چاہئیے۔

کالم نگار نے صدر کو خبردار کیا ہے کہ اگر وُہ اس جھانسے میں آ گئے تو وہ اپنی دوسری میعاد صدارت مُشکل میں ڈال دیں گے۔

اُس کا کہنا ہے کہ خوش قسمتی سے پہلے چار سالہ عہد صدارت کے دوران ختم نہ ہونے والی ری پبلکن مخالفت نے مسٹراوبامہ کو سخت جان بنا دیا ہے اور اب اُن کی پُشت پر الیکٹورل کالج کی زبر دست فتح اور عوامی ووٹوں میں تیس لاکھ کی فوقیت ہے۔ اور صدر انتخابی مہم کے دوران اس بات پر مصر رہے کہ بجٹ خسارے پر کسی سمجھوتے میں یہ لازمی ہوگا کہ متمول لوگوں کے ٹیکسوں میں اضافہ ہوگا۔