’نیو یارک ٹائمز‘ کے ایڈیٹوریل بورڈ نے ایک خصوصی ادارئے میں اس حقیقت کی طرف توجّہ دلائی ہے کہ دونوں ایران اور وہائٹ ہاؤس کی طرف سے یہ انتباہ کیا گیا ہے کہ اس نوع کی قانون سازی اس سمجھوتے کے لئے زہر ثابت ہوگی
واشنگٹن —
اس خبر کے بعد کہ امریکی سینیٹ کے دو ارکان ایک مسوّدہٴقانون مرتّب کر رہے ہیں، جس کا مقصد یہ ہے کہ اگر ایران کے ساتھ طے پانے والے عبوری سمجھوتے کے تحت کا کوئی خاطرخواہ نتیجہ نہ نکلا، تو اُس صورت میں اُس ملک کے خلاف اُس کی باقیماندہ برآمدات اور سٹرٹیجک صنعتوں پر اضافی تعزیرات نافذ کی جائیں گی۔
’نیو یارک ٹائمز‘ کے ایڈیٹوریل بورڈ نے ایک خصوصی ادارئے میں اس حقیقت کی طرف توجّہ دلائی ہے کہ دونوں ایران اور وہائٹ ہاؤس کی طرف سے یہ انتباہ کیا گیا ہے کہ اس نوع کی قانون سازی اس سمجھوتے کے لئے زہر ثابت ہوگی، ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے ہفتے کے روز تہران میں ایک انٹرویو میں ’نیو یارک ٹائمز‘ کو بتایا کہ اس کی وجہ سے پورا سمجھوتہ کالعدم ہو جائے گا، چاہے یہ تعزیرات چھ ماہ بعد بھی نافذ نہ کی جائیں۔
اخبار کا کہنا ہے کہ ایوان نمائیدگان میں بھی ایسا ہی ایک مسوّدہٴ قانون مرتّب ہورہا ہے جسے اس نے شرارت سے تعبیر کیا ہے۔
اخبار نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس قرارداد میں تجویز کیا گیا ہے کہ حتمی سمجھوتے پر سنگین قیود اور نئی تعزیرات نافذ کی جائیں۔
اخبار کہتا ہے کہ اس قسم کی کوششوں سے برآمد ہونے والے نتائج واضح نہیں ہیں، البتہ جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ یہ نہ صرف بے فائدہ بلکہ غیرضروری ہے۔ کیونکہ، مستقبل میں ضرورت پڑنے پر اس سے بھی زیادہ سنگین تعزیرات لگائی جا سکتی ہیں۔ اور عارضی سمجھوتے میں وعدہ کیا گیا ہے کہ اس دوران مزید کوئی تعزیرات نہیں لگائی جائیں گی، جب کہ نئی تعزیرات اس سمجھوتے کی خلاف ورزی ہونے کے ساتھ ساتھ امریکہ میں ایرانیوں کی سخت بدگُمانی پیدا کرنے کا باعث ہوں گی۔ مسٹر اوبامہ کو مذاکرات کے جس لچک کی ضرورت ہے، وُہ اس سے محروم ہو جائیں گے۔ اور ایک سفارتی حل کی جو امّید پیدا ہو گئی تھی، وُہ خاک میں مل جائے گی۔
اقوام متحدہ میں حقوق انسانی کے عالمگیر اعلان کی منظوری کی 65 ویں سالگرہ پر ’کرسچن سائین مانٹر‘ کہتا ہے کہ حقوق انسانی کی دنیا بھر میں جو موجودہ صورت حال ہے وُہ کسی طور امّید افزا نہیں کہلائی جا سکتی۔
دنیائے عرب میں عربوں کی بہار کے نام سے جو تحریک چل پڑی تھی، وُہ زمِستان میں بدل گئی ہے۔ رُوس کی جمہوریت محض نام کو ہے، شام کی خانہ جنگی میں انسانی جانیں، خصوصاً معصوم بچوں کی جانیں، بُہت ارزاں ہوگئی ہیں۔ پناہ گزینوں سے متعلّق اقوام متحدہ کے ادراے کے تخمینے کے مطابق، دنیا بھر میں لڑائیوں اور تشدّد کی وجہ سے پناہ گزینوں اور مستقلاً گھر سے بے گھر ہونے والوں کی مجموعی تعداد چار کروڑ 37 لاکھ ہوگئی ہے، اور ایسا لگ رہا ہے کہ امریکی سینیٹ جسمانی طور پر اپاہج لوگوں کے حقوق سے متعلّق کنونشن کی توثیق کرنے کے لئے تیا ر نہیں۔ حالانکہ، یہ ان کنونشنوں میں سے ایک ہے، جن پر مشکل ہی سے کوئی اختلافِ رائے ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ سنہ 2013 کے تناظر میں دیکھا جائے تو کچھ ٹھوس پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ مثلاً، کانگو میں امن فوج کی 14 سال کی بے عملی پر کڑی تنقید ہوتی آئی ہے۔ لیکن، ایم 23 ملشیا کو ، جس کے ہاتھوں بےشمار ہلاکتیں ہوئی ہیں، اب جنگ بندی پر مجبور کیا گیا ہے۔ اسی طرح، میانمار یا برما نےسینکڑوں سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اگرچہ، کیرین باغیوں اور روہنگیا مسلمانوں کو بودھ انتہا پسندوں کے خلاف تحفظ فراہم کرنے لئے ابھی کُچھ نہیں ہوا ہے۔ اس ملک کے صدر تھیان شین کو معلوم ہے کہ انہیں اس وقت تک بین الاقوامی قبولیت حاصل نہیں ہوسکتی، جب تک وُہ امن پسند سیاسی منحرفیں کو پابند سلاسل رکھیں گے۔ لیکن، اخبار کے خیال میں، سب سے اہم بات چین کا یہ اعلان ہے کہ وہ اُن لیبر کیمپوں کو ختم کر رہاہے، جہاں دسیوں ہزاروں چینیوں کو اُن پر مقدّمہ چلائے بغیر ڈال دیا جاتا تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ 65 برس قبل حقوق انسانی کے آفاقی اعلان کو مرتّب کرنے والوں کے وہم و گُمان میں نہ ہوگا کہ وہ دنیا کو مکمل طور پر بدلا ہوا دیکھ سکیں گے۔ لیکن، اُن کا اعتقاد تھا کہ انسانیت اُسی سمت جانے لگے گی جس کا اُنہوں نے خواب دیکھا تھا۔ اور آج کی دُنیا کا سنہ 1948 کی دُنیا سے موازنہ کیا جائے تو اس بات کا یقین نہ کرنا نا ممکن ہو جاتا ہے کہ واقعی ایسا ہو رہا ہے۔
اور آخر میں ’ہفنگٹن پوسٹ‘ کی ہوائی جہاز سے پیراشُوٹ سے زمین پر کودنے والے اُس شخص کی رپورٹ جس کا پیراشُوٹ مشکل کرتب دکھاتے ہوئے ایک دوست کے پیراشوٹ میں اُلجھ گیا اور وہ سنگین چوٹوں کے باوجود معجزاتی طور پر بچ گیا۔ فلوریڈا کے اس ہوا باز کو برطانیہ کے ایک اسپتال میں پہنچایا گیا، جہاں اس کی حالت مستحکم بتائی گئی ہے۔ 27 سالہ وکٹر برائی کی متعدد ہڈیاں ٹوٹ گئی ہیں اور سر کو بھی چوٹ آئی ہے۔ اس کا ساتھی زمین پر آتے آتےاپنا پیراشُوٹ کھولنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔
’نیو یارک ٹائمز‘ کے ایڈیٹوریل بورڈ نے ایک خصوصی ادارئے میں اس حقیقت کی طرف توجّہ دلائی ہے کہ دونوں ایران اور وہائٹ ہاؤس کی طرف سے یہ انتباہ کیا گیا ہے کہ اس نوع کی قانون سازی اس سمجھوتے کے لئے زہر ثابت ہوگی، ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے ہفتے کے روز تہران میں ایک انٹرویو میں ’نیو یارک ٹائمز‘ کو بتایا کہ اس کی وجہ سے پورا سمجھوتہ کالعدم ہو جائے گا، چاہے یہ تعزیرات چھ ماہ بعد بھی نافذ نہ کی جائیں۔
اخبار کا کہنا ہے کہ ایوان نمائیدگان میں بھی ایسا ہی ایک مسوّدہٴ قانون مرتّب ہورہا ہے جسے اس نے شرارت سے تعبیر کیا ہے۔
اخبار نے ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس قرارداد میں تجویز کیا گیا ہے کہ حتمی سمجھوتے پر سنگین قیود اور نئی تعزیرات نافذ کی جائیں۔
اخبار کہتا ہے کہ اس قسم کی کوششوں سے برآمد ہونے والے نتائج واضح نہیں ہیں، البتہ جو بات واضح ہے وہ یہ ہے کہ یہ نہ صرف بے فائدہ بلکہ غیرضروری ہے۔ کیونکہ، مستقبل میں ضرورت پڑنے پر اس سے بھی زیادہ سنگین تعزیرات لگائی جا سکتی ہیں۔ اور عارضی سمجھوتے میں وعدہ کیا گیا ہے کہ اس دوران مزید کوئی تعزیرات نہیں لگائی جائیں گی، جب کہ نئی تعزیرات اس سمجھوتے کی خلاف ورزی ہونے کے ساتھ ساتھ امریکہ میں ایرانیوں کی سخت بدگُمانی پیدا کرنے کا باعث ہوں گی۔ مسٹر اوبامہ کو مذاکرات کے جس لچک کی ضرورت ہے، وُہ اس سے محروم ہو جائیں گے۔ اور ایک سفارتی حل کی جو امّید پیدا ہو گئی تھی، وُہ خاک میں مل جائے گی۔
اقوام متحدہ میں حقوق انسانی کے عالمگیر اعلان کی منظوری کی 65 ویں سالگرہ پر ’کرسچن سائین مانٹر‘ کہتا ہے کہ حقوق انسانی کی دنیا بھر میں جو موجودہ صورت حال ہے وُہ کسی طور امّید افزا نہیں کہلائی جا سکتی۔
دنیائے عرب میں عربوں کی بہار کے نام سے جو تحریک چل پڑی تھی، وُہ زمِستان میں بدل گئی ہے۔ رُوس کی جمہوریت محض نام کو ہے، شام کی خانہ جنگی میں انسانی جانیں، خصوصاً معصوم بچوں کی جانیں، بُہت ارزاں ہوگئی ہیں۔ پناہ گزینوں سے متعلّق اقوام متحدہ کے ادراے کے تخمینے کے مطابق، دنیا بھر میں لڑائیوں اور تشدّد کی وجہ سے پناہ گزینوں اور مستقلاً گھر سے بے گھر ہونے والوں کی مجموعی تعداد چار کروڑ 37 لاکھ ہوگئی ہے، اور ایسا لگ رہا ہے کہ امریکی سینیٹ جسمانی طور پر اپاہج لوگوں کے حقوق سے متعلّق کنونشن کی توثیق کرنے کے لئے تیا ر نہیں۔ حالانکہ، یہ ان کنونشنوں میں سے ایک ہے، جن پر مشکل ہی سے کوئی اختلافِ رائے ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ سنہ 2013 کے تناظر میں دیکھا جائے تو کچھ ٹھوس پیش رفت بھی ہوئی ہے۔ مثلاً، کانگو میں امن فوج کی 14 سال کی بے عملی پر کڑی تنقید ہوتی آئی ہے۔ لیکن، ایم 23 ملشیا کو ، جس کے ہاتھوں بےشمار ہلاکتیں ہوئی ہیں، اب جنگ بندی پر مجبور کیا گیا ہے۔ اسی طرح، میانمار یا برما نےسینکڑوں سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اگرچہ، کیرین باغیوں اور روہنگیا مسلمانوں کو بودھ انتہا پسندوں کے خلاف تحفظ فراہم کرنے لئے ابھی کُچھ نہیں ہوا ہے۔ اس ملک کے صدر تھیان شین کو معلوم ہے کہ انہیں اس وقت تک بین الاقوامی قبولیت حاصل نہیں ہوسکتی، جب تک وُہ امن پسند سیاسی منحرفیں کو پابند سلاسل رکھیں گے۔ لیکن، اخبار کے خیال میں، سب سے اہم بات چین کا یہ اعلان ہے کہ وہ اُن لیبر کیمپوں کو ختم کر رہاہے، جہاں دسیوں ہزاروں چینیوں کو اُن پر مقدّمہ چلائے بغیر ڈال دیا جاتا تھا۔
اخبار کہتا ہے کہ 65 برس قبل حقوق انسانی کے آفاقی اعلان کو مرتّب کرنے والوں کے وہم و گُمان میں نہ ہوگا کہ وہ دنیا کو مکمل طور پر بدلا ہوا دیکھ سکیں گے۔ لیکن، اُن کا اعتقاد تھا کہ انسانیت اُسی سمت جانے لگے گی جس کا اُنہوں نے خواب دیکھا تھا۔ اور آج کی دُنیا کا سنہ 1948 کی دُنیا سے موازنہ کیا جائے تو اس بات کا یقین نہ کرنا نا ممکن ہو جاتا ہے کہ واقعی ایسا ہو رہا ہے۔
اور آخر میں ’ہفنگٹن پوسٹ‘ کی ہوائی جہاز سے پیراشُوٹ سے زمین پر کودنے والے اُس شخص کی رپورٹ جس کا پیراشُوٹ مشکل کرتب دکھاتے ہوئے ایک دوست کے پیراشوٹ میں اُلجھ گیا اور وہ سنگین چوٹوں کے باوجود معجزاتی طور پر بچ گیا۔ فلوریڈا کے اس ہوا باز کو برطانیہ کے ایک اسپتال میں پہنچایا گیا، جہاں اس کی حالت مستحکم بتائی گئی ہے۔ 27 سالہ وکٹر برائی کی متعدد ہڈیاں ٹوٹ گئی ہیں اور سر کو بھی چوٹ آئی ہے۔ اس کا ساتھی زمین پر آتے آتےاپنا پیراشُوٹ کھولنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔