’ یو ایس اے ٹوڈے‘ کی رپورٹ کے مطابق، صدر اوباما برما اور کمبوڈیا کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی صدر ہیں، جب کہ کمبوڈیا وہ ملک ہے جہاں ایک وقت کھمیر رُوج کے ہاتھوں انسانی قتل عام ہوتا تھا
پیر کے روز صدر اوبامہ نے اپنے جنوب مشرقی ایشیا کے دورے میں تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ ’ یو ایس اے ٹوڈے‘ کی رپورٹ کے مطابق وہ برما اور کمبوڈیا کا دورہ کرنے والے پہلے امریکی صدر ہیں۔ کمبوڈیا وہ ملک ہے جہاں ایک وقت کھمیر رُوج کے ہاتھوں انسانی قتل عام ہوتا تھا۔
اِس سے پہلے جب صدر برما کا دورہ مکمل کرنے کے بعد وہاں سے روانہ ہوئے تو سڑکوں پر ایک جم غفیر نے جھنڈیاں لہرا لہرا کر اُن کو رُخصت کیا ۔ اخبار کہتا ہےکہ یہ وہی ملک ہے جِس کا ایک وقت بین الاقوامی سطح پر مقاطعہ کیا جاتا تھا۔لیکن، اب وہاں جمہوری عمل بحال ہونے کے آثار نظر آ رہے ہیں۔
مسڑ اوبامہ نے ایک برمی یونیورسٹی میں تقریر کی جو کسی وقت برمی حزب اختلاف کی گڑھ مانی جاتی تھی۔بر می عوام کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک کی نئی سولین حکومت کو جمہوریت کے پودے کی آبیاری جاری رکھنی چاہئیے۔ مروجّہ امریکی رواج سے انحراف کرتے ہوئے اُنہوں نے صدر تھین سین کے ساتھ مذاکرات میں اس ملک کو میان مار کے نام سے پُکارا۔سابق فوجی حکومت اور موجودہ حکومت اس ملک کو اسی نام سے پہچانتی ہے، جب کہ ملک کے جمہوریت نوازوں اور امریکی حکومت کے لئے ترجیحی نام ’ برما‘ ہے۔
صدر کے قومی سلامتی کے نائب مشیر بین رہوڈز نے بعد میں بتا یا کہ صدر نے سفارتی آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے میان مار کا نام استعمال کیا تھا۔ ورنہ امریکی پوزیشن کے مطابق یہ اب بھی برما ہے۔
نائب مشیر نے یہ بھی کہا کہ صدر کے لئے وفور جذبات کا لمحہ وُہ تھا جب وُہ آنگ سین سُوچی کے گھر گئے اوراُنہیں گلے لگاتے ہوئے کہا کہ اُن کی شخصیت اُن کے لئے باعث تقلید رہی ہے۔ آنگ سین سُوچی نے اپنی نظر بندی کے بیس سال إسی مکان میں گُذارے تھے۔
ایسے میں جب غزّہ کی پٹّی کے خلاف اسرئیلی فوجی کاروائی کے نتیجے میں پیر تک مرنے والوں کی تعداد 91 تک پہنچ گئی ہے۔
’ واشنگٹن پوسٹ‘ کی اطلاع ہے کہ غیر ملکی لیڈروں نے جنگ بندی کے لئے اپنی کوششیں دو چند کر دی ہیں۔ اقوام متحدہ کے سکرٹری جنرل بن کی مون قاہرہ پہنچ گئے ہیں ۔ جہاں سے وہ جنگ بندی کی اپیل جاری کریں گے۔
اخبار کہتا ہے کہ مصری لیڈر چند روز قبل کے مقابلے میں اب جنگ بندی کے بارے میں زیادہ پُر امید نظر آتے ہیں۔ اگرچہ ابھی بھی ایسے کوئی آثار نظر نہیں آرہے کہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس یا اسرائیلی حکام لڑائی سے پیچھے ہٹنے والے ہیں، مصری وزیر اعظم ہاشم قندیل نےقاہرہ میں کہا ہے کہ مذاکرات جاری ہیں اور اُن کا اندازہ ہے کہ سمجھوتہ قریب ہے۔ لیکن پیش گوئی کرنا بُہت مشکل ہے ۔ حماس کے جلا وطن لیڈرخالد مشعل کا اصرار تھا کہ اسرائیل کو پہلے وسیع تر فلسطینی مطالبات ماننے پڑیں گے۔ اُسے اپنا حملہ بند کرنا پڑے گا اور غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنی ہوگی۔
جنگ بندی کے مذاکرات میں کسی پیش رفت کی عدم موجودگی میں برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ اگر اُس نے غزہ کی پٹی پر چڑھائی کرنے کی دہمکی پر عمل کیا تو اُسے بین الاقوامی حمائت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے ۔ اور پیر کے روز مصری صدر محمدمورصی نے متعدد عالمی لیڈروں سے ٹیلی فون پر اس بحران پر تبادلہ خیال کیا ہے جِن میں جرمن چانسلر انگیلا مرکل اور ایرانی صدر محمود احمدی نجاد شامل ہیں۔
ادھر، نیو یارک کے اخبار’ نیوز ڈے‘ کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی سے جو کٹیُوشا راکیٹ اسرائیل پر داغے جاتے رہے ہیں وُہ پریشان کُن ضرور ہیں، لیکن اُن سے اسرائیل کے وجود کو کوئی خطرہ نہیں۔ البتہ، خطرہ اُن زیادہ دُور مار کرنے والے مزائیلوں سے ہے جن کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ وہ ایران سے غزہ پہنچ رہے ہیں۔فجر پانچ قسم کے یہ مزائیل اسرائیل کے کسی علاقے کو نشانہ بنا سکتے ہیں،اور اخبار کے مطابق، ان مزائیلوں کو افریقہ میں کسی مقام پر جوڑا جاتا ہے اور پھر اُنہیں صحرائے سینا کے راستے غزّہ پہنچایا جاتاہے۔
اخبار یہ بھی کہتا ہے کہ ایسے کوئی آثار نہیں ہیں کہ اس میں مصر کی حکومت شامل ہے۔ بلکہ، حقیقت میں اس جھگڑے کی وجہ سے مصر کے لئے ایک بڑی مُشکل پیدا ہو گئی ہے۔وُہ یوں کہ ہر چند کہ مصر فلسطینیوں کے ساتھ بالعموم اور غزہ کے لوگوں کے ساتھ بالخصوص ہمدردی کرنا چاہتا ہے ۔ وہ نہیں چاہتا کہ ایران کا اثرونفوذ غزہ یا مغربی کنارے تک پھیلے۔
اسی لئے، اخبار کہتا ہے کہ اب کے اسرائیل نے غزہ کے خلاف جو سنگین کاروائی کی ہے ۔اُس کا ہدف غزہ، حماس یا کٹیوشا راکیٹ نہیں بلکہ ایرانی فجر پانچ راکیٹو ں کے ذخائر ہیں۔ اسرائیل کبھی اس کی کبھی اجازت نہیں دے گاکہ ایران حما س کو ان دور مار راکیٹوں سے مسلّح کرے۔
اِس سے پہلے جب صدر برما کا دورہ مکمل کرنے کے بعد وہاں سے روانہ ہوئے تو سڑکوں پر ایک جم غفیر نے جھنڈیاں لہرا لہرا کر اُن کو رُخصت کیا ۔ اخبار کہتا ہےکہ یہ وہی ملک ہے جِس کا ایک وقت بین الاقوامی سطح پر مقاطعہ کیا جاتا تھا۔لیکن، اب وہاں جمہوری عمل بحال ہونے کے آثار نظر آ رہے ہیں۔
مسڑ اوبامہ نے ایک برمی یونیورسٹی میں تقریر کی جو کسی وقت برمی حزب اختلاف کی گڑھ مانی جاتی تھی۔بر می عوام کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ملک کی نئی سولین حکومت کو جمہوریت کے پودے کی آبیاری جاری رکھنی چاہئیے۔ مروجّہ امریکی رواج سے انحراف کرتے ہوئے اُنہوں نے صدر تھین سین کے ساتھ مذاکرات میں اس ملک کو میان مار کے نام سے پُکارا۔سابق فوجی حکومت اور موجودہ حکومت اس ملک کو اسی نام سے پہچانتی ہے، جب کہ ملک کے جمہوریت نوازوں اور امریکی حکومت کے لئے ترجیحی نام ’ برما‘ ہے۔
صدر کے قومی سلامتی کے نائب مشیر بین رہوڈز نے بعد میں بتا یا کہ صدر نے سفارتی آداب کو ملحوظ رکھتے ہوئے میان مار کا نام استعمال کیا تھا۔ ورنہ امریکی پوزیشن کے مطابق یہ اب بھی برما ہے۔
نائب مشیر نے یہ بھی کہا کہ صدر کے لئے وفور جذبات کا لمحہ وُہ تھا جب وُہ آنگ سین سُوچی کے گھر گئے اوراُنہیں گلے لگاتے ہوئے کہا کہ اُن کی شخصیت اُن کے لئے باعث تقلید رہی ہے۔ آنگ سین سُوچی نے اپنی نظر بندی کے بیس سال إسی مکان میں گُذارے تھے۔
ایسے میں جب غزّہ کی پٹّی کے خلاف اسرئیلی فوجی کاروائی کے نتیجے میں پیر تک مرنے والوں کی تعداد 91 تک پہنچ گئی ہے۔
’ واشنگٹن پوسٹ‘ کی اطلاع ہے کہ غیر ملکی لیڈروں نے جنگ بندی کے لئے اپنی کوششیں دو چند کر دی ہیں۔ اقوام متحدہ کے سکرٹری جنرل بن کی مون قاہرہ پہنچ گئے ہیں ۔ جہاں سے وہ جنگ بندی کی اپیل جاری کریں گے۔
اخبار کہتا ہے کہ مصری لیڈر چند روز قبل کے مقابلے میں اب جنگ بندی کے بارے میں زیادہ پُر امید نظر آتے ہیں۔ اگرچہ ابھی بھی ایسے کوئی آثار نظر نہیں آرہے کہ فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس یا اسرائیلی حکام لڑائی سے پیچھے ہٹنے والے ہیں، مصری وزیر اعظم ہاشم قندیل نےقاہرہ میں کہا ہے کہ مذاکرات جاری ہیں اور اُن کا اندازہ ہے کہ سمجھوتہ قریب ہے۔ لیکن پیش گوئی کرنا بُہت مشکل ہے ۔ حماس کے جلا وطن لیڈرخالد مشعل کا اصرار تھا کہ اسرائیل کو پہلے وسیع تر فلسطینی مطالبات ماننے پڑیں گے۔ اُسے اپنا حملہ بند کرنا پڑے گا اور غزہ کی ناکہ بندی ختم کرنی ہوگی۔
جنگ بندی کے مذاکرات میں کسی پیش رفت کی عدم موجودگی میں برطانوی وزیر خارجہ ولیم ہیگ نے اسرائیل کو خبردار کیا ہے کہ اگر اُس نے غزہ کی پٹی پر چڑھائی کرنے کی دہمکی پر عمل کیا تو اُسے بین الاقوامی حمائت سے ہاتھ دھونا پڑیں گے ۔ اور پیر کے روز مصری صدر محمدمورصی نے متعدد عالمی لیڈروں سے ٹیلی فون پر اس بحران پر تبادلہ خیال کیا ہے جِن میں جرمن چانسلر انگیلا مرکل اور ایرانی صدر محمود احمدی نجاد شامل ہیں۔
ادھر، نیو یارک کے اخبار’ نیوز ڈے‘ کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی سے جو کٹیُوشا راکیٹ اسرائیل پر داغے جاتے رہے ہیں وُہ پریشان کُن ضرور ہیں، لیکن اُن سے اسرائیل کے وجود کو کوئی خطرہ نہیں۔ البتہ، خطرہ اُن زیادہ دُور مار کرنے والے مزائیلوں سے ہے جن کے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ وہ ایران سے غزہ پہنچ رہے ہیں۔فجر پانچ قسم کے یہ مزائیل اسرائیل کے کسی علاقے کو نشانہ بنا سکتے ہیں،اور اخبار کے مطابق، ان مزائیلوں کو افریقہ میں کسی مقام پر جوڑا جاتا ہے اور پھر اُنہیں صحرائے سینا کے راستے غزّہ پہنچایا جاتاہے۔
اخبار یہ بھی کہتا ہے کہ ایسے کوئی آثار نہیں ہیں کہ اس میں مصر کی حکومت شامل ہے۔ بلکہ، حقیقت میں اس جھگڑے کی وجہ سے مصر کے لئے ایک بڑی مُشکل پیدا ہو گئی ہے۔وُہ یوں کہ ہر چند کہ مصر فلسطینیوں کے ساتھ بالعموم اور غزہ کے لوگوں کے ساتھ بالخصوص ہمدردی کرنا چاہتا ہے ۔ وہ نہیں چاہتا کہ ایران کا اثرونفوذ غزہ یا مغربی کنارے تک پھیلے۔
اسی لئے، اخبار کہتا ہے کہ اب کے اسرائیل نے غزہ کے خلاف جو سنگین کاروائی کی ہے ۔اُس کا ہدف غزہ، حماس یا کٹیوشا راکیٹ نہیں بلکہ ایرانی فجر پانچ راکیٹو ں کے ذخائر ہیں۔ اسرائیل کبھی اس کی کبھی اجازت نہیں دے گاکہ ایران حما س کو ان دور مار راکیٹوں سے مسلّح کرے۔