امریکی اخبارات سے: حلب کی لڑائی اور جمہوری روس کا خواب

'وال اسٹریٹ جرنل' نے لکھا ہے کہ شام کے بارے میں امریکہ نے شروع سے ہی ایسی شانِ بے نیازی دکھائی ہے کہ جیسے صدر بشار الاسد کا زوال بس چند روزکی بات ہو۔
شام کے صدر بشار الاسد کی حامی افواج اور باغیوں کے درمیان ملک کے سب سے گنجان شہر اور معاشی مرکز حلب پر قبضے کی جنگ تیسرے ہفتے میں داخل ہوچکی ہے اور علاقے سے شدید لڑائی کی اطلاعات موصول ہورہی ہیں۔

Your browser doesn’t support HTML5

امریکی اخبارات سے: 02 اگست 2012ء



اس بارے میں اخبار 'وال اسٹریٹ جرنل' نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ اسد حکومت کی افواج نے ٹینکوں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کے بعد اب جنگی طیاروں کے ذریعے بھی حلب کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے اور وہ ہر صورت شہر پر اپنا قبضہ برقرار رکھنا چاہتی ہیں۔

اخبار کے مطابق حلب میں لڑائی کے باعث دو لاکھ سے زائد افراد کے بے گھر ہونے اور لاتعداد ہلاکتوں کے بعد آخرِ کار اوباما انتظامیہ بھی حرکت میں آئی ہے اور اس نے شامی باغیوں کو بلواسطہ طور پر مدد فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اخبار نے لکھا ہے کہ صدر اوباما اور وزیرِ خارجہ ہیلری کلنٹن نے پہلے تو صدر بشار الاسد سے اقتدار چھوڑنے کا مطالبہ کرنے میں مہینوں لگائے اور پھر اس ضمن میں کوئی عملی قدم اٹھانے کے بجائے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں"نشستند و گفتند و برخواستند" کرتے مزید کئی مہینے ضائع کردیے۔

'وال اسٹریٹ جرنل' کے مطابق شام کے بارے میں امریکہ نے شروع سے ہی ایسی شانِ بے نیازی دکھائی ہے کہ جیسے صدر بشار الاسد کا زوال بس چند روزکی بات ہو۔ اس کے برعکس شامی صدر اپنی ہٹ کے ایسے پکے نکلے کہ کسی طور ہار ماننے پر آمادہ نہیں اور ان کی جانب سے طاقت کے بے دریغ استعمال سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ اقتدار چھوڑنا تو دور کی بات، اسے برقرار رکھنے کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار ہیں۔
حلب کی لڑائی نے امریکہ کو ایک ایسا موقع فراہم کیا ہے جس سے ماضی کی بے عملی کا ازالہ ہوسکتا ہے
وال اسٹریٹ جرنل


اخبار نے لکھا ہے کہ حلب کی لڑائی نے امریکہ کو ایک ایسا موقع فراہم کیا ہے جس سے ماضی کی بے عملی کا ازالہ ہوسکتا ہے اور شام کی صورتِ حال کو مزید بگڑنے سے بچایا جاسکتا ہے۔

'وال اسٹریٹ جرنل' نے امریکی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اپنے کسی طیارہ بردار جنگی جہاز کو شام کے ساحل کے نزدیک لنگر انداز کرے اور اسد حکومت کو خبردار کردے کہ وہ حلب پر بمباری روک دے۔ اخبار کے مطابق یہ ایک ایسی تنبیہ ہوگی جسے نظر انداز کرنا شام کے لیے ممکن نہیں ہوگا۔

'وال اسٹریٹ جرنل' لکھتا ہے کہ حلب کی لڑائی کی سنگینی اور شدت کے پیشِ نظر یہ امکان موجود ہے کہ یہ شام میں کسی باقاعدہ جنگ یا کم از کم خانہ جنگی کا نقطہ آغاز ثابت ہو۔ ایسے میں اگر امریکہ نے آگے بڑھ کر قائدانہ کردار ادا نہ کیا تو معاملہ مزید بگڑ سکتا ہے اور خطے میں موجود جہادی عناصر صورتِ حال کا فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔


مشکلوں میں گھری روسی حزبِ اختلاف

اخبار 'نیویارک ٹائمز' نے روس میں حزب ِ اختلاف کی جماعتوں، رہنمائوں اور حکومت کے ناقدین کو درپیش مشکل حالات کو اپنے اداریہ کا موضوع بنایا ہے۔

اخبار نے لکھا ہے کہ صدر ولادی میر پیوٹن کی زیرِ قیادت روسی حکومت روز بروز مزید رجعت پسند اور آمرانہ ہوتی جارہی ہے۔

گزشتہ ماہ روسی پارلیمان نے انٹرنیٹ ویب سائٹس، مظاہرین اور سماجی تنظیموں پر سرکاری کنٹرول بڑھانے کے لیے قانون سازی کی جب کہ رواں ہفتے روسی صدر کے خلاف گانا گانے کی پاداش میں ایک میوزک بینڈ کے تین ارکان کے خلاف مقدمے کی کاروائی کا آغاز ہوا ہے۔

روس کے صدر ولادی میر پیوٹن


اس سے قبل صدر پیوٹن اپنے خلاف انتخاب لڑنے والے ماضی کے طاقت ور اور امیر ترین تاجر میخائل خودرو وسکی کو بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل چکے ہیں جس پر عالمی برادری نے خاصا شور مچایا تھا۔

ناقدین کے خلاف پیوٹن حکومت کی کاروائیوں کی فہرست خاصی طویل ہے جس میں تازہ ترین اضافہ صدر پیوٹن کے سب سے مقبول اور معتبر ناقد آلیکسے نیوا النی کے خلاف مقدمے بازی کی صورت ہوا ہے۔

'نیو یارک ٹائمز' نے لکھا ہے کہ مسٹر آلیکسے صدر پیوٹن کے خلاف گزشتہ برس ہونے والے مظاہروں میں پیش پیش تھے۔ ان کی شناخت ایک ایسے کرپشن مخالف رہنما کی ہے جو اکثر اوقات اپنے بلاگ کے ذریعے روسی اشرافیہ کی غلط کاریوں کا پردہ چاک کرتے ہیں۔

اخبار کے مطابق مسٹر آلیکسے کے خلاف ایک سرکاری کمپنی سے لکڑی کی چوری کا انوکھا مقدمہ قائم کیا گیا ہے جس میں انہیں 10 برس تک کی سزا ہوسکتی ہے۔
صدر پیوٹن کے دورِ اقتدار میں ایک آزاد اور جمہوری روس کی توقع کرنا عبث ہے
نیویارک ٹائمز


اخبار لکھتا ہے کہ روس میں برسرِ اقتدار طبقے کی جانب سے اپنے مخالفین کے خلاف انتقامی کاروائیوں کے لیے مبہم قوانین کا سہارا لینا ایک عام بات ہے جس میں صدر پیوٹن کے دور میں تیزی آئی ہے۔

'نیو یارک ٹائمز' نے لکھا ہے کہ روسی صدر اپنے مخالفین کو دیوار سے لگانے میں کبھی نہیں ہچکچائے اور اپنے ناقدین کی زبان بندی کے لیے وہ کسی بھی حد تک جانے کو تیار نظر آتے ہیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ گلوکاروں، مظاہرین، انٹرنیٹ صارفین اور سماجی شخصیات اور تنظیموں کے خلاف حالیہ انتقامی کاروائیاں یہ بتانے کے لیے کافی ہیں کہ صدر پیوٹن کے دورِ اقتدار میں ایک آزاد اور جمہوری روس کی توقع کرنا عبث ہے۔