امریکی اخبارات سے: ووٹنگ اور نتائج کے اندازے

’نیو یارک ٹائمز ‘ نے صدارتی انتخابات کے نتائج کے بارے میں بتایا ہے کہ اس بات کا اندازہ غالباً ابتدا ہی میں ہو جائے گا کہ اُن کا رُخ کس جانب ہے۔ البتہ، حتمی پوزیشن کا تعیُّن کرنے کے لئے شاید منگل کی پُوری رات انتظار کر نا پڑے
امریکہ میں صدارتی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا عمل شروع ہو گیا ہے اور بُدھ کی صبح تک اندازہ ہو جائے گا کہ کون جیتا ہے۔

’لاس انجلیس ٹائمز ‘ کہتا ہے کہ انتخابات کی صبح کو کلیدی ریاستوں میں صدر اوبامہ کو مٹ را منی پرایک معمولی سی سبقت حاصل ہے، جس کے بل بوتے پر وہ دوسری بار صدر منتخب ہو سکتے ہیں۔ لیکن، اخبار کہتا ہے کہ مٹ رامنی نے جس مسابقت کا مظاہرہ کیا ہے اس کی بدولت وُہ اب بھی اوبامہ کو گدی سے اُتار سکتے ہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ قومی سطح پررائے عامّہ کے جو جائزے لئے گئے ہیں اُن سے اندازہ ہوتا ہےکہ ووٹروں کا رُخ اوبامہ کی طرف ہے، جس سے یہ امکان پیدا ہو گیا ہے کہ یہ انتخابی مقابلہ متنازعہ ووٹوں پر جھگڑے کی وجہ سے کئی دن یا ہفتوں تک طوُل نہیں پکڑے گا، جیسا کہ بعض لوگوں کو اندیشہ ہے۔

کلیدی ریاستوں میں ہونے والے رائے عامّہ کے جائزوں میں سے بھاری اکثریت اُن کی ہے جن کے مطابق صدر اوبامہ کو ہلکی سی سبقت حاصل ہے۔ لیکن، اُن میں سہو کا جو عُنصر ہے اُس کا لحاظ کرتے ہوئے مقابلہ برابر ہے۔ چُنانچہ، اخبار کہتا ہے کہ اگر اوبامہ دوبارہ منتخب ہو گئے تو واشنگٹن میں منقسم انتظامیہ کی روایت برقرار رہے گی۔ لیکن، اگر مٹ رامنی بر سر اقتدار آئے تو سنہ 2012 کو ایک ایسے سال کے طور پر یاد رکھا جائے گا جب چوتھی مرتبہ انتخابات کی وجہ سے تبدیلی آئی۔ یعنی پہلے 2006 میں کانگریس پر ڈیموکریٹوں کا قبضہ ، پھر سنہ 2008 میں اوبامہ کا انتخاب اور سنہ 2010 میں ایوان نمایندگاں پر ری پبلکنز کا غلبہ۔

’نیو یارک ٹائمز ‘ نے صدارتی انتخابات کے نتائج کے بارے میں بتایا ہے کہ اس بات کا اندازہ غالباً ابتدا ہی میں ہو جائے گا کہ اُن کا رُخ کس جانب ہے۔ البتہ، حتمی پوزیشن کا تعیُّن کرنے کے لئے شاید منگل کی پُوری رات انتظار کر نا پڑے گا۔

اخبار کہتا ہے کہ امریکی تاریخ میں یہ تیسرا صدارتی انتخاب ہے جس میں رائے عامّہ کا جائزہ لینے والے بڑے ادارے آپ کو یہ بتانے سے قاصر ہیں کہ صدار اوبامہ اور مٹ رامنی میں سے کسے فیصلہ کُن سبقت حاصل ہے۔

سنہ 2012 کے انتخابات میں اُمیدوارں نے پانی کی طرح جو رپیہ لُٹایا ہے ہے اُس پر’واشنگٹن پوسٹ‘ کے ایڈیٹوریل بورڈ نے ایک خصوصی ایڈیٹوریل میں کہاہے کہ جہاں تک سیاست پر پیسے کی مکرُوہ تاثیر کا تعلّق ہے تو رواں سال کی انتخابی مہم گُھڑ دوڑ میں شرطیں لگانے کی تشویش ناک مثال ذہن میں آتی ہے۔

واٹر گیٹ سکینڈل کے تناظُر میں صدارتی انتخابات کے اخراجات کے لئے پبلک فنڈنگ کا جو نظام قائم کیا گیا تھا، وُہ مکمٓل طور پر ناکام ہو گیا ہےاور سوپر پیک پولٹکل کمیٹیاں وجُود میں آ گئی ہیں جن کو یہ کُھلی چُھٹی دی گئی ہے کہ وہ بے حدّ و حساب چیک وصول کر سکتی ہیں، تاکہ انتخابی امیدواروں کے حق میں یا اُن کے خلاف مہم پر آنے والےاخراجات پُورے کئے جا سکیں، اور پھر کالے دھن کی بھر مار ہو گئی ہے اور منافع نہ لینے والے اداروں اور کاروباری تنظیموں کے اخراجات پر کوئی روک ٹوک نہیں ہے اور ان کے لئے چندہ دینے والوں کے نام بتانا ضروری نہیں ہے۔

چنانچہ، اخبار کہتا ہے کہ اس کے نتیجے میں جو نظام قائم ہوا ہے اس میں نقدی ہی نقدی ہے اور خطرناک حد تک کرپشن کی گُنجائش ہے اور ہر صدارتی انتخاب پر آنے والے اخراجات سابقہ انتخاب سے زیادہ ہو تے ہیں۔ اور واٹر گیٹ کے بعد رواں سال کے صدارتی انتخاب پر اُٹھنے والا تمام خرچ پرائیویٹ ذرائع سے آیا ہے۔ اس کے نتیجے میں امید واروں کو ڈالر جمع کرنے پر زیادہ وقت لگانا پڑا ہےاور اُن لوگوں کا ممنونٕ احسان رہنا پڑتا ہے ، جن سے ہزاروں بلکہ لاکھوں ڈالر کے عطیات آتے ہیں۔

اخبار کہتا ہے کہ دونوں پارٹیوں نے ایک ایک ارب ڈالر جمع کیا اور صدر اوبامہ نے پہلے اس نظام کو ختم کرنے میں مدد بہم پہنچائی لیکن بعد میں اس کی اصلاح کرنے کا وعدہ توڑا ۔

لیکن، بہرحال اُن کو کم از کم یہ کریڈٹ جاتا ہے کہ انہوں نےانہیں ڈالر فراہم کرنے والوں کی نشان دہی تو کر دی۔ لیکن، مٹ رامنی نے اپنے سابق پیشروٴں کے برعکس اس کم سے کم شفافیت پر عمل کرنے سے بھی انکار کر دیا۔

اخبار کہتاہے کہ دولتمندوں کی طرف سے بھاری رقومات کی ادائیگی سیاسی نظام مسخ ہو سکتا ہے اور اس میں کرپشن پھیل سکتی ہے۔

سپریم کورٹ کے فیصلوں کو غلط قرار دیتے ہوئے اخبار کہتا ہے کہ اُن کی موجودگی میں ان مسائل کو درست کرنا مُشکل ہوگا۔

اخبار کے نزدیک ءسنہ2012 میں اس سے بھی زیادہ تشویش طلب بات یہ ہے۔ کہ باہر کے ادارے یعنی نام نہاد منافع نہ لینے سماجی بہبود کی تنظیموں اور تجارتی انجمنوں نے فیڈرل الیکشن کمیشن کی تشریح کا ناجائز فایدہ اُٹھاتے ہوئے چندہ دینے والوں کا نام نہ بتانے میں کامیاب ہوجاتی ہیں۔ ایک تحقیقی ادارے کی رپورٹ ہے کہ اس سال اس طرح تقریباًٍ تیس کروڑ ڈالرخُفیہ طور پر آیا ہے۔