امریکی اخبارات سے: جراٴتمند ملالہ

برمنگھم

طالبان کےبارے میں پاکستان کے کئی لیڈروں کی سیاسی حکمت عملی معذرت خواہانہ رہی ہے: لاس انجلس ٹائمز
امریکی اخبارات میں ٕعلم کی چودہ سالہ پاکستانی مُجاہدہ ملالہ یوسف زئی پر طالبان کے بُزدلانہ حملے کےعواقب پر کالموں کے کالم لکھے جارہے ہیں۔

’لاس انجلس ٹائمز ‘کہتا ہے کہ طالبان نے ملالہ کو نشانہ بنانے کی یہ وجہ بتائی ہے کہ وُہ پختون علاقوں میں مغربی کلچر پھیلا رہی تھی۔چنانچہ، اِس کا سوال ہے کہ کیا کوئی طریقہ ہے جِس کے ذریعے ایسے علاقوں میں جہاں طالبان کا زور ہے خواتین کے حقوق کی بحفاظت حمائت کی جائے۔پاکستان اور اس کے اتّحادی کیا کر سکتے ہیں،تاکہ یا تو اصلاحی اقدامات کے نفاذ کے لئے طالبان کے ساتھ مل کر کام کیا جائے یا پھر اُنہیں شہریوں میں دہشت پھیلانے سے روکا جائے۔

اخبار کی دعوت پر دانشوروں اور سرگرم کارکنوں نے اس مباحثے میں شرکت کی۔

حسین حقّانی، جو بوسٹن یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے پروفیسر اور سابق سفیر ہیں، کہتے ہیں کہ ملالہ پر طالبان کے حملے سے اُن لوگوں کی آنکھیں کُھل جانی چاہئیں جو إِن درندوں سے لڑائی سے بچنے کے طریقوں کی تلاش میں تھے۔

وُہ کہتے ہیں کہ ملالہ سےپہلے اِن درندوں کا نشانہ بننے والوں میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بُھٹو، پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر اور اقلیّتی وزیر شہباز بھٹّی شامل ہیں، جن کا قصور محض یہ تھا کہ وُہ طالبان اور اُن کے اسلام پسند اتّحادیوں کی ظُلمت پسندی اورتنگ نظری کے مقابلے میں روشن خیالی کی وکالت کرتے تھے۔

حقّانی کہتے ہیں کہ بین ا لاقوامی برادری پاکستان کو تربیت، سازوسامان اور اقتصادی امداد سے سہارا دے سکتی ہے اور طالبان کا یہ دعویٰ بالکل بے بنیادہے کہ ملالہ کو اسلئے نشانہ بنایا گیا کہ وہ پختو ن علاقوں میں مغربی کلچر پھیلا رہی تھی اور بد قسمتی کی بات یہ ہے کہ مغرب میں کئی لوگ اسلام بمقابلہ مغرب کے اس جھانسے میں آ گئے ہیں، کیونکہ وُہ دور دراز علاقوں میں لڑائی میں نہیں اُلجھنا چاہتے۔

اِس کے علاوہ حقّانی کہتے ہیں کہ طالبان کےبارے میں پاکستان کے کئی لیڈروں کی سیاسی حکمت عملی معذرت خواہانہ رہی ہے۔ اور اس طرح طالبان کے اصل ارادوں کے بارے میں انتشار رہاہے۔طالبان کے نظرئے کی بُنیاد، تعصُّب، عورتوں سے بیزاری اورمنافرت ہےاور سنہ 2001 سے قبل اُنہوں نے جو ظُلم ڈھائے ہیں اُن پر پردہ ڈالنے کے لئے وُہ افغانستان میں امریکی قیادت میں جاری جنگ کو بہانہ بناتے ہیں۔

حقّانی یاد دلاتے ہیں کہ سنہ1996 میں جب طالبان نے کابُل پر یلغار کی تھی, تو محکمہٴ خارجہ کے ایک ترجمان نے انہیں پشتُون قوم پرست قرار دیا تھا جو ایک ایسی غلطی تھی جس کی بدولت افغانستان پر ان کا قبضہ مستحکم ہو گیا تھا اور نو گیارہ کے سانحے کے بعد ہی امریکہ کے رویّے اور منصوبوں میں تبدیلی آئی ۔ اور اگر اب پھر اس خطرے سے نمٹنے میں کوتاہی برتی گئی تو پھر یہ اُسی غلطی کا اعادہ ہوگا۔


آمنہ بُٹر ایک ڈاکٹر ہیں جو بےنظیر بھٹو کے ساتھ کام کر چُکی ہیں اور پاکستان پارلیمنٹ کی رکن رہ چکی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ جب وُہ پاکستان میں تھیں تو اُن کے وہم و گُمان میں بھی یہ بات نہیں آئی تھی کہ وقت آئے گا جب لڑکیوں کو سکول جانے کی پاداش میں گولی مار دی جائے گی۔ لیکن، اب پاکستان کو منظّم مجرموں نے ہائی جیک کر لیا ہے جو اپنے آپ کو طالبان کہتے ہیں۔اور اسلام کا رکھوالا کہتے ہیں جب کہ انہیں اسلام کی ابجد تک نہیں معلوم۔انہیں یہ تک نہیں معلوم کہ قرآن کا پہلا لفظ’ اقرا‘، یعنی, ’پڑھو‘ ہے۔

پیر زُبیر شاہ پاکستان میں ’نیو یارک ٹائمز ‘کے رپورٹر رہ چُکے ہیں اور آج کل امریکہ میں کونسل آن فارٕن ری لیشنز کے فیلو ہیں۔

اُن کا کہنا ہے کہ آج کل نام نہاد اچھے طالبان اور بُرے طالبان میں تمیز کرنے کی جو کوشش ہورہی ہےوُہ لایعنی ہے۔ ملالہ پر حملے سے ظاہر ہو گیا ہے کہ طالبان میں جنہیں سوات سے مار بھگایا گیا تھا اب بھی اپنے دُشمن کو نشانہ بنانے کی صلاحیت ہےاور اس سے ثابت ہو گیا ہے کہ ایک پُختہ منصوبے کے بغیر اُن سے لڑنا کس قدر مُشکل ہے۔ اور پاکستان کا یہ فرض بنتا ہے کہ ملالہ اور اس طرح کے دوسرے لوگ جو ایک جدید تعلیم یافتہ اور ترقّی پسند ملک کا خواب دیکھ رہے ہیں، اُنہیں تحفّظ فراہم کرے۔

’شکاگو سن ٹائمز ‘ کے ادارئے کا عنوان ہےباہر کے ملکوں سے نقل وطن کر کے آنے والوں کو جو لوگ امریکہ کے لئے خطرہ سمجھتے ہیں اُن کی تعداد میں کمی آئی ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ سنہ1992 میں امریکیوں کی بھاری اکثریت کا یہ خیال تھا کہ تارکین وطن کا بھاری تعداد میں امریکہ آنا اس ملک کے لئے سنگین خطرہ ہے۔ لیکن، اِس نظرئے پر قائم ایسے امریکیوں کا تناسُب اس سال صرف چالیس فیصد رہ گیا ہے اور اخبار کے خیال میں، ایک ایسے ملک میں جس کی تعمیر ہی تارکین وطن کی تھی یہ تبدیلی پیش رفت کے زُمرے میں آتی ہے۔

اِسی طرح، جو لوگ غیر قانونی تارکین ِ وطن پر پابندی لگانے یا اُس میں تخفیف کرنے کو خارجہ پالیسی کا ایک اہم نصب العین سمجھتے تھے، اُن کا تناسُب بھی 72 فیصد سے کم ہو کر 53 فیصد رہ گیا ہے۔ یہ اعداو شمار ایسے وقت میں سامنے آرہے ہیں جب میکسیکو سے کوئی بھی امریکہ نقل وطن کرکے نہیں آ رہا۔