امریکی اخبارات سے: مغربی کنارے میں بستیوں کی تعمیر

اقوام متحدہ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، اِن بستیوں کی تعمیر چوتھے جینیوا کنوینشن کی خلاف ورزی ہے، جس کے مطابق شہری آبادی کو مقبوضہ علاقوں میں منتقل کرنے کی ممانعت کی گئی ہے
اقوام متحدہ کےحقوق انسانی کے تفتیش کاروں نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ مقبوضہ مغربی کنارے پر مزید یہودی بستیاں تعمیر کرنے سے باز آ جائے اور پانچ لاکھ یہودی آباد کاروں کو وہاں سے ہٹا لے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ ان کاروائیوں کی بنا پر اسرائیل کے خلاف جنگی جرائم کا مقدمہ قائم ہو سکتا ہے۔

’شکاگو ٹربیون‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق، اقوام متحد کے ایک تین رُکنی پینل نے یہ بھی کہا ہے کہ نِجی کمپنیوں کو اُن بستیوں میں کام کرنا بند کردینا چاہئیے اگر اُن کی وجہ سے فلسطینیوں کے حقوق انسانی پر بُرا اثر پڑ رہا ہو، اور اقوام متحدہ کے رُکن ممالک سے یہ بات یقینی بنانے کی درخواست کی ہے کہ یہ کمپنیاں حقوق انسانی کا احترام کریں۔

جس تین رُکنی کمیٹی نے اقوام متحدہ کا یہ تحقیقاتی کام کیا ہے اُس کی فرانسیسی سربراہ جج کرسٹین شانے نےجینیوا میں ایک اخباری کانفرنس کو بتایا کہ اسرائیل کو نہ صرف بستیوں کی تعمیر کا کام بند کر دینا چاہئے بلکہ حقوق انسانی کی خلاف ورزیوں کا شکار ہونے والوں کے لئے مناسب فوری اور موثّر کاروائی کرنی چاہئے۔ اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے مطابق، اِن بستیوں کی تعمیر چوتھے جینیوا کنوینشن کی خلاف ورزی ہے جس کے مطابق شہری آبادی کو مقبوضہ علاقوں میں منتقل کرنے کی ممانعت کی گئی ہے۔ یہ ایسے جنگی جرائم کے زمرے میں آسکتا ہے جن پر اقوام متحدہ کی فوجداری عدالت میں مقدّمہ چلایا جا سکتا ہے۔

جج شانے نے کہا کہ مقبوضہ علاقوں میں اپنی آبادی منتقل کرنے کی اس لئے ممانعت کی گئی ہے کہ اس سے حقِ خود ارادیت کے استعمال میں روکاوٹ آتی ہے۔

یہ کاروائی فلسطینیوں کی طرف سے اقوام متّحدہ کے نام ایک خط پرکی گئی ہے جس میں اسرائیل پر الزام لگایا گیا تھا کہ وُہ یہودی بستیوں میں توسیع کر کے مزید جنگی جرائم کر رہاہے اور اس کے لئے اسرائیل کا احتساب ہونا چاہئے۔

اخبار کہتا ہے کہ اسرایئلی وزارت خارجہ نے اس رپورٹ کو بے فائدہ قرار دے کر یکسر مسترد کر دیا ہے جب کہ فلسطین کی تنظیم آزادی نے اس کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے اُصو لوں کے عین مطابق قرار دیا ہے۔

رپورٹ کے مطابق1967 ءمیں قبضے کے بعد اسرائیل نے مغربی کنارے اور مشرقی یروشلم میں ڈھائی سو یہودی بستیاں قائم کی ہیں جن میں نو لاکھ بیس ہزار آبادکار رہتے ہیں۔ ان بستیوں کی وجہ سے فلسطینیوں کو پانی اور اپنے کھیتوں تک رسائی حاصل نہیں رہی۔ ان بستیوں سے علاقے پر قبضہ ہونے کے بعد فلسطینیوں کے لئےایک ایسی مملکت کا قیام ممکن نہیں رہا جس کی سرزمین ایک سرے لے کر دوسرے سرے سے ملی ہوئی ہو۔ اور جیسا کہ رپورٹ میں کہا گیا ہے۔ اس کی وجہ سے فلسطینیوں کا حق خود ارادیت سخت مجروح ہواہے۔

اور جب سے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطینیوں کا رُتبہ بڑھا کر مبصّر کا درجہ دیا ہے، اسرائیل نے مزید تین ہزار ایسے گھر مغربی کنارے اور یروشلم میں تعمیر کرنے کا اعلان کیا ہے جن کی فلسطینیوں کو اپنی مملکت کے لئے ضرورت ہے اور جس میں غزّہ کی پٹّی بھی شامل ہوگی۔

’واشنگٹن پوسٹ‘ کی رپورٹ ہے کہ جیسے جیسے افغانستان سے نیٹو فوجوں کے حتمی انخلا کا وقت قریب آتا جارہا ہے، وہاں ملک چھوڑ کر کہیں اور جانے کا رُجحان بڑھ رہا ہے۔

اخبار کہتا ہےکہ بیسویں صدی میں پناہ گزینوں کا سب سے بڑا اور ڈرامائی ریلہ افغانستان ہی سے روانہ ہوا تھا۔ لیکن پناہ گزینوں کے اس بُحران کے کے دو عشرے بعد بھی اس ملک سے افغان برابر آہستہ آہستہ نقل وطن کر رہے ہیں اور اخبار نے ملک کی پناہ گُزینوں اور آبادکاری کی وزارت کے اعدادو شمار کے حوالے سے بتایا ہے کہ پچھلے سال کم از کم پچاس ہزار افغان ملک چھوڑ کر یورپ اور آسٹریلیا فرار ہو گئے۔

اخبار کہتا ہے کہ چُونکہ امریکہ اور بہت سے غیر ممالک سے ویزا حاصل کرنا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے اس لئے ان میں سے بیشتر پناہ گزینوں نے انسانی سمگلروں کی خدمات حاصل کیں۔ اس سے بھی زیادہ لوگ یا تو پاکستان بھاگ گئے یا ایران۔ اقوم متحدہ کے اعدادو شمار کے مطابق اس وقت دنیا بھر میں جتنے پناہ گزین ہیں۔ اُن میں سے ایک تہائی افغان ہیں۔



اخبار کہتا ہے کہ ملک چھوڑنے کی ایک وجہ یہ بڑھتا ہوا اندیشہ ہے کہ سنہ 2014 کے اواخر تک نیٹو فوجوں کے انخلاء کے بعد افغانستان کی امن و امان کی صورت حال اور خراب ہو جائے گی۔

اخبار یاد دلاتا ہے کہ 1980 ءکی دہائی میں سوئت قبضے کے دوران افغانستان سے پچاس لاکھ افراد وہاں سے نقل وطن کر گئے تھے اور اُن میں سے بیشتر پاکستان اور ایران بھاگ گئے تھے۔ ایک عشرے بعد جب افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہوئی تو پناہ گزینوں کے دوسرے انخلاٴ کا آغاز ہوا تھا۔