امریکی اخبارات سے: 2014ء کے بعد کا افغانستان

حال ہی میں جن باتوں سے پردہ اُٹھ چُکا ہے اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسٹر اوبامہ امریکی اور بین الاقوامی فوجوں کو مکمّل طور پر ہٹانے پر غور کر رہے ہیں: زلمے خلیل زاد
افغانستان میں سنہ 2014 کے بعد کتنی امریکی فوج پیچھےچھوڑی جانی چاہئیے، اس پر ایک معاہدہ کرنے میں امریکہ کو کُچھ دُشوریاں درپیش ہیں،جِن پر کابُل میں سابق امریکی سفیر زلمے خلیل زاد، ’واشنگٹن پوسٹ‘ میں رقمطراز ہیں کہ یہ معاہدہ طے نہ پانے کا خطرہ موجود ہے۔

اگرچہ دونوں فریق سیکیورٹی کا دوطرفہ معاہدہ کرنا چاہتے ہیں، خلیل زاد کہتے ہیں کہ صدر اوبامہ کو افغان صدر حامد کرزئی سے مایوسی ہے اور وُہ اگلے سال افغانستان میں امریکہ کا کردار ختم کرنے پر تُلے ہوئے ہیں، اور اُنہوں نے کابل کو کوئی معاہدہ کرنے کے لئےاکتوبر تک کی مہلت دی ہے۔ بصورت دیگر، واشنگٹن یک طرفہ کاروائی کرے گا جس کی وضاحت تو نہیں کی گئی ہے۔ لیکن، حال ہی میں جن باتوں سے پردہ اُٹھ چُکا ہے اُن سے ظاہر ہوتا ہے کہ مسٹر اوبامہ امریکی اور بین الاقوامی فوجوں کو مکمّل طور پر ہٹانے پر غور کر رہے ہیں۔

خلیل زاد کہتے ہیں کہ واشنگٹن میں عہدیداروں کے ساتھ بات چیت کے بعد وُہ اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اکتوبر تک ایسا معاہدہ طے پانے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ افغانستان نے واشنگٹن پر بدظنی کے جو الزامات لگائے ہیں اُن کے پیش نظر سلامتی سے متعلّق دو طرفہ معاہدے کے لئے اوبامہ انتظامیہ کا جوش ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔ مسٹر کرزئی کو شائد اس کا اندازہ نہیں کہ امریکہ کی عداوت مول لینا کابل کو کس قدر مہنگی پڑ سکتی ہے، کیونکہ امریکہ نے جو پیشکش کر رکھی ہے، اُس کے تحت افغانستان کو سیکیورٹی کی اور اقتصادی مدّ میں سب سے زیادہ امداد مل سکتی ہے، یعنی اسرائیل سے بھی زیادہ۔

خلیل زاد کہتے ہیں کہ امریکہ کے ساتھ کرزئی کی بدظنی کی دو وجوہ ہیں۔ ایک تو سنہ 2009 کے انتخابات کے دوران اُن پر بدعنوانیوں کی الزام تراشی کی گئی۔ اور دوسرے پاکستان کی طرف امریکی پالیسی نے بھی اُن کے خیال میں بد اعتمادی پیدا کر رکھی ہے۔ کرزئی کو اس پر مایوسی ہے کہ امریکہ اُس ملک میں افغان باغیوں کی پناہ گاہوں سے نمٹنے اور سرحد کی پاکستانی جانب سے فائرنگ کا جواب کے لئے تیا رنہیں۔

دوحہٰ میں طالبان کے دفتر کےافتتاح کو بھی کرزئی افغاستان کا بٹوارہ کرنے کی پاک امریکی سازش کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، اور وُہ خود اس معاملے کو تمام طالبان دُشمن افغانوں کو نہ صرف پاکستان بلکہ امریکہ کے خلاف متّحد کر نے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔


خلیل زاد کہتے ہیں افغانستان میں اوبامہ انتظامیہ کا بنیادی مقصد القاعدہ کو شکست دینا ہے، لیکن افغانستان کو نہ صرف القاعدہ سے خطرہ ہے، بلکہ پاکستان میں پناہ لینے والے القاعدہ سے ملحق طالبان دھڑوں سے بھی جن میں ازبکستان کی تحریک اسلامی بھی شامل ہے۔ اس اعتبار سے واشنگٹن اور کابُل کے درمیان سیکیورٹی کے اُس مجوّزہ معاہدے کی نوعیت پر بھی اختلاف ہے جس کی مدد سے اس خطرے سے نمٹنا مقصود ہے۔

خلیل زاد کا خیال ہے کہ اگر یہ معاہدہ طے نہ پا سکا تو یہ ایک بھاری سٹرٹیجک دھچکہ ہوگا۔ افغانستان کی تنصیبات ہاتھ سے نکل جانے کے بعد اس خطے میں القاعدہ کے خلاف َامریکی ڈرون حملے متاثر ہونگے۔ امریکہ کا اس طرح افغانستان کو اس طرح چھوڑ جانے کا مطلب ہوگا اندرونی خلفشار اور اس خلاء کو پورا کرنے کے لئے کے دوسرے ملکوں کی طرف سے مداخلت میں اضافہ، جن میں پاکستان، ہندوستان، ایران، چین اور روس شامل ہیں۔

سنہ 2014 کے بعد سے متعلّق اس معاہدے پر بات چیت کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے خلیل زاد کہتے ہیں کہ یہ دونوں ملکوں کے لیڈروں کے لئے ایک آزمایش ہے۔ صدر کرزئی کو دو میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہوگا۔ یعنی یا تو ذاتی گلے شکوؤں کا قیدی بن کر رہنا یا پھر اپنے ملک کے مفادات کو محفوظ کرنا۔ جب کہ مسٹر اوبامہ کے لئے یہ لمحہء فکریہ ہے کہ آیا اتنی مشکل سے حاصل کئے گئے فوائد کو اس طرح داؤ پر لگا کر افغانستان کو دہشت گرد تنظیموں کی آماجگاہ بننے دینےکا خطرہ مول لینا کہاں کی دانشمندی ہے کہ مُستقبل کا کوئی اور امریکی صدر دوبارہ افغانستان پر حملہ کرنے پر مجبور ہو جائے۔

اس ہفتے شدّت پسندوں نے پاکستان کے سکّھر شہر میں آئی ایس آئی کے علاقائی دفتر پر جو خوفناک حملہ کیا تھا، ’انٹرنیشنل ہیرلڈ ٹریبیون‘ کے بقول، طالبان نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ انُہیں کی کارستانی تھی۔ اس میں کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہوئے تھے اور یہ حقیقت پھر اُجاگر ہوگئی کہ اِن شدّت پسندوں میں حساس ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کی کتنی صلاحیت ہے۔

اخبار یاد دلاتا ہے کہ پچھلے چھ سال کے دوران جنگجو بمباروں نے آئی ایس آئی کو بار بار نشانہ بنایا ہے۔ سنہ 2011 میں اس ایجنسی کے فیصل آباد کے دفتر پر حملے میں اس کے پانچ کارکُن ہلاک کر دئے تھے۔ جبکہ اس سے دو سال قبل اس کے لاہور کے علاقائی ہیڈکوارٹر پر ایسے ہی حملے میں 23 افراد کو ہلاک کیا گیا تھا۔

ماضی قریب میں، ایسے حملے کم ہی ہوئے ہیں۔ لیکن، سکّھر کے حملے سے یہ عیاں ہو گیا کہ اِن شدّت پسندوں کی پُہنچ کہاں تک ہے۔ باوجودیکہ، افغان سرحد کے ساتھ ساتھ اُن کے مضبوط ٹھکانوں پر تقریباً مسلسل فوجی کار وائی جاری ہے۔ اِن حملوں سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ بعض شدّت پسند تنظیمیں، جنہیں پہلے پاکستانی انٹلی جنس کی سر پرستی حاصل تھی، اب اپنے ہی سابقہ مربّیوں کے خلاف صف آرا ہوگئی ہیں۔ علاوہ ازیں شدت پسندوں کے حملوں کی ذمّہ دار ی قبول کرنے والوں کے دعووں سے یہ تعیُن کرنا دشوار ہوجاتا ہے کہ یہ کارستانی طالبان کے کس د ھڑے کی ہو سکتی ہے۔

سکھر کے حملے کا دعویٰ ایک اور دھڑے نے بھی کیا تھا جو اپنے آپ کو جنداللہ کہتا ہے۔ لیکن، تنظیم کے بڑے دھڑے تحریک طالبان نے ذمّہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ حملہ اُس امریکی ڈرون حملے کا انتقام لینے کے لئے کیا گیا تھا جس میں طالبان کا نائب امیر ولی الرّحماٰن ہلاک ہوا تھا۔ پاکستانی عہدہ داروں نے حال ہی میں درجنوں شدّت پسندوں کو گرفتار کیا ہے جن کا تعلّق فیصل آباد، جھنگ اور کراچی کی فرقہ وارانہ تنظیموں سے تھا۔