امریکی اخبارات سے: افغانستان، فوجی انخلا اور اختیارات کی سپردگی

A dining facility worker, left, serves soldiers and civilians for their Thanksgiving meal at the U.S.-led coalition base in Kabul, Afghanistan, November 22, 2012.

سرکردہ ڈیموکریٹک لیڈروں نے اشارہ دیا ہے کہ وُہ اگلے سال فوجوں میں مسلسل تخفیف کے حق میں ہیں، جب کہ ری پبلکنز کا یہ موقّف ہے کہ اگر فوجیں جلد ہٹالی گئیں، تو اتنی مشکل سے جو پیش رفت حاصل کی گئی ہے وُہ خطرے میں پڑ جائے گی

’نیو یارک ٹائمز ‘کی اطلاع ہے کہ امریکہ اور اُس کے اتحادی ایک فوج کا منصوبہ تیار کر رہے ہیں جو سنہ 2014 میں سیکیورٹی کے اختیارات کابل حکومت کے سپرد ہونے کے بعد افغانستان میں موجود رہے گی۔

اخبار نے ایک فوجی عہدہ دار کے حوالے سے بتایا ہے کہ انسداد دہشت گردی کی اس فوج کی نفری1000 سے کم ہوگی۔ اسی کے متوازی نیٹو افواج بڑے بڑے علاقائی فوجی اور پولیس ہیڈ کوارٹروں میں افغان فوجیوں کو مشورے دیتی رہیں گی ، اور اغلب یہی ہے کہ ماسوائے چند مخصوص مشیروں کے محاذ جنگ میں ان کا کردار برائے نام ہوگا ، سنہ 2014 کے بعد امریکہ اور نیٹو کی کتنی فوجیں افغانستان میں موجود رہیں گی اُن کی حتمی تعداد کے بارے میں فیصلہ ابھی نہیں ہوا ۔ البتہ، اخبار کے بقول، ایک رائے یہ ہے کہ اس میں امریکہ کے 10000 فو جی اور نیٹو کے مزید کئی ہزار فوجی ہونگے۔

سنہ 2014 کے بعد کے دور میں افغان مشن کی کیونکر منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔ یہ، اخبار کے بقول، صدر اوبامہ کی دوسری میعاد صدارت کے لئے ایک ابتدائی امتحان کی حیثیت اختیار کر چُکا ہے، جس میں وہ سیکیورٹی کی ذمہ داریاں افغانوں کو سونپنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن، یہی ایک چیلنج نہیں ہے۔ بلکہ، جب یہ طے ہو جائے کہ سنہ 2014 کے بعد افغانستان میں کتنی ایک فوج باقی چھوڑی جائے گی،تو پھر یہ طے کرنا ہوگا کہ اس سے پہلے فوجوں کی موجودہ 66 ہزار کی تعداد میں کس قدر جلد تخفیف کی جائے۔

ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان کے پاس ایک موثر ائر فورس سنہ2017 سے پہلے نہیں ہوگی، اس لئے اس وقت تک امریکہ اور نیٹو کی ہوائی طاقت سنہ 2014 کے بعد بھی وہاں موجود رہے گی۔یہ تمام تفصیلات طے کرنا اس لئے بھی ضروری ہو گیا ہے، کیونکہ امریکہ نے افغانوں کے ساتھ سیکیورٹی کے ایک معاہدے پر مذاکرات شروع کر دئے ہیں، جس کے تحت امریکہ کو سنہ 2014 کے بعد وہاں اپنی فوج رکھنے کی اجازت ہوگی اور جس میں اس بات کا تعیّن کیا جائے گا کہ اس کے بعد امریکی اور نیٹوفوجوں کا کیا کردار ہوگا۔


اخبار کہتا ہے کہ ایک سوال یہ ہوگا کہ امریکی انسداد دہشت گردی فوج کا دائرہ ٴاختیارکیا ہوگا۔اُس کے اہداف میں القاعدہ اور امکانی طور پر پاکستان میں قائم عسکریت پسند تنظیم لشکرٕطیّبہ شامل ہونگی۔

سنہ 2008 میں ممبئی پر دہشت گردانہ حملوں کی ذمّہ دار لشکر طیّبہ کے بعض ارکان شمال مشرقی افغانستان میں بھی موجود ہیں۔لیکن، اخبار کے بقول، ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اِن اہداف میں پاکستانی سرزمین سے کاروائی کرنے والاحقّانی نیٹ ورک بھی شامل ہے، جس پر پچھلے دو سال سے امریکی کمانڈوز کی توجّہ مرکوز ہے۔

اخبار کہتا ہے کہ افغانستان میں فوجوں کی واپسی کا معاملہ پہلے ہی سیاسی طور پر متنازع بن چکا ہے ۔بعض سرکردہ ڈیموکریٹک لیڈروں نے اشارہ دیا ہے کہ وُہ اگلے سال فوجوں میں مسلسل تخفیف کے حق میں ہیں، جب کہ ری پبلکنز کا یہ موقّف ہے کہ اگر فوجیں جلد ہٹا لی گئیں، تو اتنی مشکل سے جو پیش رفت حاصل کی گئی ہے وُہ خطرے میں پڑ جائے گی۔

ادھر ’وال سٹریٹ جرنل‘ کی ایک تجزیاتی رپورٹ کے بقول، افغان حکومت کے اندرونی حلقوں میں اس بات پر بحث جاری ہے کہ آیا سنہ 2014 کے بعد امریکہ کو افغانستان میں فوج رکھنے کی اجازت دی جانی چاہئیے یا نہیں، اخبار نے صدر کرزئی کے چیف آف سٹاف مسٹرعبدالکریم خُرّم کے حوالے سے بتایا ہے کہ اگر اب تک ڈیڑھ لاکھ غیر ملکی فوج کی موجودگی سے کامیابی نہیں ہوئی ہے، تو سنہ 2014 کے بعد بیس تیس ہزار کی فوج ملک میں موجود رکھنے سے یہ کامیابی کیسے ممکن ہوگی۔

اخبار کہتا ہے کہ بد دل صدر کرزئی نے اتحادی فوجوں کے کمانڈر جنرل ایلن کے ساتھ ایک حالیہ ملاقات میں شکائت کی تھی کہ طالبان اب وردگ اور لُوگر جیسے صوبوں میں حتیٰ کہ کابل کے مضافات میں کھلم کھلا کاروائیاں کر رہے ہیں۔

’وال سٹریٹ جرنل‘ کے مطابق طالبان نے بھی دہمکی دے دی ہے کہ جو بھی شخص افغانستان میں غیر ملکی اڈّے برقرار رہنے کی اجازت دے گا، تاریخ میں اس کی حیثیت ایک غدّار کی ہوگی اور اُس کا حشر شاہ شُجاع کا سا ہوگا۔ شاہ شجاع کو برطانوی سامراجی دور میں افغانستان کے تخت پر بٹھایا گیا تھا ، لیکن انگریز فوج کی وہاں سے روانگی کے ساتھ ہی لوگوں نے اسے ہٹا کر اُس کی تکا بوٹی کر دی تھی۔

سنہ 2012 کے انتخابات میں صدر اوبامہ نہ صر ف دوبارہ منتخب ہوئے، بلکہ ووٹوں کی مجموعی تعداد میں انہیں اپنے ریپبلکن حریف کے مقابلےمیں34 لاکھ ووٹوں کی برتری بھی حاصل ہوئی۔ اس پر ہفت روزہ نیشن کہتا ہے کہ امریکی ووٹر واقعتا ً ایک منصفانہ اور فعال جمہوریت کے خواہاں ہیں اور یہ کہ ڈیموکریٹوں اور ان کے اتحادیوں کو عوام نے اس لئے یہ اختیار دیا ہے کہ وہ اس جمہوریت کے لئے اپنی جدوجہد جاری رکھیں۔