’ عرب اسپرنگ ‘، مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کا نادرموقعہ

  • شہناز عزیز

’ہمارا خون، انقلاب کےلیے ایندھن‘

گذشتہ ہفتے نیویارک میں Group of 8کی میٹنگ میں فرانس کے وزیرِ خارجہ نے کہا کہ مصر، تیونس، اردن اور مراقش کو آئندہ دو برس کے دوران تقریباً 80ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا گیا ہے

روزنامہ’ واشنگٹن پوسٹ‘ مصر کے لیے بین الاقوامی امداد کےبارے میں اپنے ایک اداریے میں لکھتا ہے کہ مہینوں سے مغرب کے لیڈر اعلان کر رہے تھے کہ’ عرب اسپرنگ ‘مشرق وسطیٰ کو تبدیل کرنے کا ایک تاریخی اور نازک امکان فراہم کرتا ہے۔

گذشتہ ہفتے نیویارک میں Group of 8کی میٹنگ میں فرانس کے وزیرِ خارجہ نے کہا کہ مصر، تیونس، اردن اور مراقش کو آئندہ دو برس کے دوران تقریباً 80ارب ڈالر کی امداد کا وعدہ کیا گیا ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ جیسا کہ عام طور سے بین الاقوامی امداد کے ساتھ ہوتا ہے، اِن رقوم کی ترسیل نہیں کی جارہی۔ مثال کے طور پر مصر کو تقریباً17.5ارب ڈالر کی پیش کش کی گئی تھی۔ تاہم، مصر کے یکجہتی اور سماجی انصاف کے وزیر کے مطابق اُس میں سے تقریباً کچھ بھی امداد نہیں دی گئی اور اُن کےاپنے الفاظ میں اِس میں زیادہ تر پروپیگنڈہ ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ قاہرہ کو قرضوں میں چھوٹ دینے اور ایک نئے فنڈ کےلیے امریکی انتظامیہ کی تجاویز کو ایوان کے ریپبلیکنز کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے جو سوال اٹھا رہے ہیں آیا مصر پر جلد ہی اسلام پسندوں کی حکمرانی ہوگی یا یہ کہ آیا وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے تعلقات توڑلے گا۔اداریے کے الفاظ میں ایسے خطرات ہیں۔ تاہم، اُن کے عمل میں آنے کا امکان اُس صورت میں بڑھ جائے گا اگر مغرب کی امداد سے محروم مصر آنے والے مہینوں میں اپنے کارکنوں کی تنخواہوں کی ادائگی یا نوجوان افراد کے لیے روزگار کی تشکیل کا اہل نہ ہو سکا۔

اور، اخبار ’لاس انجلیس ٹائمز‘ کا ایک اوپینین ایڈیٹوریل گواناتانامو کے قیدخانے کے بارے میں ہے۔

اخبار الکھتا ہے کہ علامات کتنی طاقتور ہوتی ہیں اُس کی ایک مثال ایران کے قید سے اس ماہ رہا ہونے والے دو امریکیوں کا یہ بیان ہے کہ جب اُنھوں نے تہران میں اپنے قیدخانے کی صورتِ حال کے بارے میں شکایت کی تو جیلرز نے فور ی طور پر اُنھیں گوانتانامو کے قیدخانے کی اُسی طرح کی صورتِ حال یاد دلائی۔

اخبار کے الفاظ میں اِس میں ایک سچ یہ ہے کہ گوانتانامو میں حالات خود امریکہ میں موجود کسی بھی انتہائی سکیورٹی والے قیدخانے کے مقابلے میں بدرجہا بہتر ہیں۔

مصنف کا کہنا ہے کہ میں یہ بات ایک ایسے وکیل کی حیثیت سے کہہ رہا ہوں جس نے گوانتانامو کو امریکہ میں کسی کے بھی مقابلے میں زیادہ عرصے تک چیلنج کیا ہے۔

مصنف کے مطابق صورتِ حال ہمیشہ ہی آج جیسی نہیں تھی اور سنہ 2002 کے آخر سے سنہ 2006تک گوانتانامو میں تفتیش کا طریقہٴ کار ناشائستہ اور ظالمانہ تھا۔ تاہم ، سنہ 2006کے بعد سے حالات بہتر ہوگئے ہیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ حقیقت یہ ہے کہ امریکی فوج میں سینئر عہدے داروں کی بڑی اکثریت کبھی بھی گوانتانامو کو وہ قابلِ نفرت مقام نہیں بنانا چاہتی تھی جیسا وہ سنہ 2002 کے آخر میں بن گیا تھا۔

سنہ 2006کے آخر میں یہ عہدیدار اِس جیل خانے پر دوبارہ کنٹرول حاصل کرکے اُسے ایک زیادہ بہتر انسانی صورتِ حال میں لانے میں کامیاب ہوئے۔

اخبار لکھتا ہے کہ اگرچہ کسی وقت گوانتانامو کے قیدخانے کی صورتِ حال اخلاقی دیوالیے کی علامت تھی، تاہم آج بھی یہ قابلِ شرم حقیقت موجود ہے کہ بیسیوں ایسے قیدی جنھیں دو انتظامیہ منتقلی کے لیے کہہ چکی ہیں، بدستوں حراست میں ہیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ اِن قیدیوں کی قسمت جیل کی کوٹھڑی کی چار دیواریں ہیں اور ملک کو خود کو اس حقیقیت پر مبارکباد نہیں دینی چاہیئے کہ کبھی یہ قیدخانہ زیادہ بدتر صورتِ حال میں تھا۔

اخبار’ نیو یارک ٹائمز ‘Clean the Recoveryکے عنوان سے لکھتا ہے بین الاقوامی مالی فنڈ نے اس سال عالمی افزائش کے لیے اپنی پیش گوئی کو 4.3سے کم کرکے 4کردیا ہے۔ اُسے توقع ہے کہ مالدار ملکوں میں شرحِ افزائش محض 1.6فی صد ہوگی۔ اخبار کے بقول ہوسکتا ہے کہ یہ بہت زیادہ خوش امیدی ہو۔

اخبار لکھتا ہے کہ یہ سچ ہے کہ بہت سے ملکوں کے پاس روزگار کی تشکیل اور شرح افزائش کو فروغ دینے کی پالیسیوں کے لیے رقوم نہیں ہیں۔ تاہم، امریکہ، برطانیہ، جرمنی اور چین جیسے ملک اندرونِ ملک زیادہ خرچ کرکے اور ایسے کمزور ملکوں سے جو اپنی معیشتون کو تحریک دینے کی اہلیت نہیں رکھتے، زیادہ خریداری کرکے عالمی طلب کو سہارا دے سکتے ہیں۔

’نیو یارک ٹائمز‘ آخر میں لکھتا ہے کہ اقتصادی پالیسی سازوں نے ماضی میں ایسی ہی غلطیاں کی تھیں اور یہی چیز عظیم کساد بازاری کی وجہ بنی تھی اور اب اسے درست کرنے کے لیے بہت زیادہ وقت باقی نہیں بچا ہے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے: