نیو یارک ٹائمز کہتا ہے کہ یہ کتاب رواں امریکی صدارتی انتخابی مہم کی سیاست میں الجھاؤ کا سبب بن سکتی ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے اسی موضوع پر ایک فلم اکتوبر کے مہینے میں ریلیز ہونے والے تھی جو نومبر تک موخّر کر دی گئی ہے
جس امریکی کمانڈو نے پچھلے سال ایبٹ آباد میں حملے کے دوران اسامہ بن کو ہلاک کرنے کا احوال ایک کتاب میں ایک پس پردہ مصنّف کی حیثیت سےلکھا ہے، اس کا نام نیو یارک ٹائمز کے مطابق صرف ایک روز صیغہء راز میں رہنے کے بعد طشت از بام ہو گیا ہے۔ اور فاکس نیوز نے انکشاف کیا ہے کہ مارک اون کے فرضی نام سے لکھنے والے اس کمانڈو کا اصل نام میٹ بسو نیٹ ہے، اور یہ کتاب پین گوٕ نے چھاپی ہے ، جس میں پچھلے سال کمانڈو حملے میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت پر مصنّف کا چشم دید احوال درج ہے اور جس کی فروخت گیارہ ستمبر کو شروع ہو رہی ہے، کتاب کا نام نو إیزی وے ہے۔اس کے پبلشرز ، پین گوٕن یہ نہیں بتا رہے کہ آیا انہوں نے حکومت سے اسے شائع کرنے کی اجازت لی ہے نہیں ، محکمہٗ دفاع کے پریس سکرٹری کا کہنا ہے ، کہ اس نے کتاب نہیں پڑھی، اور نا ہی اسے معلوم ہے کہ آیا محکمے کے کسی عہدہ دار نے اس کی اشاعت سے پہلے اسے پڑھا ہے ۔
نیو یارک ٹائمز کہتا ہے کہ یہ کتاب رواں امریکی صدارتی انتخابی مہم کی سیاست میں الجھاؤ کا سبب بن سکتی ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے اسی موضوع پر ایک فلم اکتوبر کے مہینے میں ریلیز ہونے والے تھی ۔ لیکن یہ ریلیز نومبر تک موخّر کر دی گئی ، کیونکہ ری پبلکن پارٹی والوں کو اعتراض تھا کہ صدر اوباما کا ایک امتیازی کارنامہ ایسے ڈرامائی انداز میں انتخابات سے قبل پبلک کے سامنے پیش جائے گا ۔ ان میں سے بعض کو یہ اعتراض تھا کہ حکومت نے اسامہ بن لادن پر حملے کے بارے میں فلم بنانے والوں کو غیر مناسب ر سائی فراہم کی تھی۔ جس کی وہائٹ ہاؤس کی طرف سے تردید کی گئی تھی ۔
مصنّف نے فرضی نام کیوں استعمال کیا ؟ اس پر پبلشرز کہتے ہیں، کہ اس کے پیچھے محض اپنی حفاظت کا جذبہ کارفرما تھااور کتاب کی تشہیر کے لئےجب وہ ریڈیو اور ٹیلی وژن پر آئئے گا ، تووہ بھیس بھی بدلے گا او ر اپنی آواز بھی ، اور اس پروگرام میں فی الحال کوئی رد و بدل نہیں کیا جائے گااور خیال ہے کہ یہ کتاب موسم خزاں میں جب بازار میں آئے گی۔تو اس کا شماربھای تعداد میں بکنے والی کتابوں میں ہوگا ۔ اور پین نے پہلے ہی اس کی اشاعت کی تعداد تین لاکھ سے بڑھا کر چار لاکھ کر دی ہے۔
ڈیلس مارننگ نیوز
اخبار ڈیلّس مارننگ نیوزکہتا ہے کہ افغانستان حسب سابق پریشانی کا سبب بنا ہوا ہے ۔ اخبار کہتا ہے کہ اس کے ایڈیٹوریل بورڈ نے ایک پُوری سہ پہر افغانستان پر بحث و تمحیص میں گزار دی ۔ امریکہ کے لئے یہ اب تک کی طویل ترین جنگ ہئے جس میں اس کے دو ہزار فوجی ہلاک ہو چکےہیں۔ ویت نام کی جنگ میں اتنے فوجی چند ماہ میں ہلاک ہو جاتے تھے۔لیکن اس بحث کے بعد افغانستان کے لئے کوئی واضح نُسخہ بورڈ کو نہ سُوجھا۔ اس نے کئی ماہ پہلے فیصلہ کیا تھا کہ امریکہ کے لئے افغانستان میں بالواسطہ قسم کی ایسی کاروائی برقرار رکھنا ضروری ہے ، جس کی مدد سے اس خطّے کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچایا جائے ۔ چنانچہ افغانستان میں فوجیوں کی ہلاکتیں افسوس ناک ضرور ہیں ۔ لیکن وہ ایک ایسے مشن کا نتیجہ ہیں، جو ضروری ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ افغانستان کے بنیادی مسائیل صرف افغانستان کے اندر ہی سے سُلجھائے جا سکتے ہیں۔ جس کی کہ مستقبل قریب میں کوئی امّید نہیں، اور تاریخ دانوں کی بحث ا س بات پر مرکوز رہےگی، کہ ایسی امید کا موقع اُس وقت ہاتھ سے نکل گیا تھا، جب بُش انتظامیہ نے افغانستان میں القاعدہ کو ٹھکانے لگانےکی جگہ عراق میں صدّام حسین کی حکومت برطرف کرنے کا فیصلہ کیا۔ سنہ 2014 میں ایک روز افغانستان سے کہا جائے گا ۔کہ وہ سیکیورٹی کی تمام ذمہ داریاں خود سنبھالے۔اور یہ بات یقینی نہیں ہے کہ آیا افغان فوجیں اس وقت اس کے لئے تیار ہونگی یا نہیں ، اور اس طرح امریکہ کو ایک بار پھر یہ فیصلہ کرنا ہوگا۔ کہ آیا اُسےاس ملک میں مزید رکنا چاہئے ،یا نکل آنا چاہئے۔ جو پہلے فیصلے کے مقابلے میں کم آسان فیصلہ نہیں ہوگا۔
ڈیٹرائٹ فری پریس
اخبار ڈیٹرائٹ فری پریس ایک ادارئے میں کہتا ہےکہ امریکہ اور دوسرے ممالک ،جو ایران کو اپنے جوہری عزائم سے باز رکھنے میں پُر عزم ہیں، یہ باور کرنے لگے تھے کہ اس ملک کے خلاف لگائی گئی تعزیرات کار گر ثابت ہو رہی ہیں۔ لیکن جیسا کہ اوباما انتظامیہ نے تسلیم کیا ہے ۔ یہ تعزیرات عراق کی حرکتوں کی وجہ سے بے اثر ہو رہی ہیں، جی ہاں اُسی عراق کی وجہ سے جس پر امریکی ٹیکس گُذاراُنہیں صدّام حسین کی آہنی گرفت سے آزاد کرانے کےلئے اربوں ڈالر خرچ کر چکے ہیں ، اور پھر مزید اربوں ڈالر اس کی نوزائیدہ جمہوری حکومت کو سہارا دینے پر لُٹا چُکے ہیں۔ تاکہ یہ حکومت ایران کے خلاف ایک ڈھال کا کام دے۔ اخبار کا سوال ہے کہ نوری المالکی کی حکومت کے ارکان کیوں احمدی نجاد کی حکومت کی ایرانی تیل کو سمگل کرانے میں امداد کر رہے ہیں ، اور اس کے لئے عراق کے الف اسلامی بینک کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور یہ بینک عراق کے مالیاتی اداروں کے نیٹ ورک کا محض ایک حصّہ ہے جس کے ذریعے امریکی ڈالر ایران منتقل کئے جا رہے ہیں۔
نیو یارک ٹائمز کہتا ہے کہ یہ کتاب رواں امریکی صدارتی انتخابی مہم کی سیاست میں الجھاؤ کا سبب بن سکتی ہے۔ کیونکہ اس سے پہلے اسی موضوع پر ایک فلم اکتوبر کے مہینے میں ریلیز ہونے والے تھی ۔ لیکن یہ ریلیز نومبر تک موخّر کر دی گئی ، کیونکہ ری پبلکن پارٹی والوں کو اعتراض تھا کہ صدر اوباما کا ایک امتیازی کارنامہ ایسے ڈرامائی انداز میں انتخابات سے قبل پبلک کے سامنے پیش جائے گا ۔ ان میں سے بعض کو یہ اعتراض تھا کہ حکومت نے اسامہ بن لادن پر حملے کے بارے میں فلم بنانے والوں کو غیر مناسب ر سائی فراہم کی تھی۔ جس کی وہائٹ ہاؤس کی طرف سے تردید کی گئی تھی ۔
مصنّف نے فرضی نام کیوں استعمال کیا ؟ اس پر پبلشرز کہتے ہیں، کہ اس کے پیچھے محض اپنی حفاظت کا جذبہ کارفرما تھااور کتاب کی تشہیر کے لئےجب وہ ریڈیو اور ٹیلی وژن پر آئئے گا ، تووہ بھیس بھی بدلے گا او ر اپنی آواز بھی ، اور اس پروگرام میں فی الحال کوئی رد و بدل نہیں کیا جائے گااور خیال ہے کہ یہ کتاب موسم خزاں میں جب بازار میں آئے گی۔تو اس کا شماربھای تعداد میں بکنے والی کتابوں میں ہوگا ۔ اور پین نے پہلے ہی اس کی اشاعت کی تعداد تین لاکھ سے بڑھا کر چار لاکھ کر دی ہے۔
ڈیلس مارننگ نیوز
اخبار ڈیلّس مارننگ نیوزکہتا ہے کہ افغانستان حسب سابق پریشانی کا سبب بنا ہوا ہے ۔ اخبار کہتا ہے کہ اس کے ایڈیٹوریل بورڈ نے ایک پُوری سہ پہر افغانستان پر بحث و تمحیص میں گزار دی ۔ امریکہ کے لئے یہ اب تک کی طویل ترین جنگ ہئے جس میں اس کے دو ہزار فوجی ہلاک ہو چکےہیں۔ ویت نام کی جنگ میں اتنے فوجی چند ماہ میں ہلاک ہو جاتے تھے۔لیکن اس بحث کے بعد افغانستان کے لئے کوئی واضح نُسخہ بورڈ کو نہ سُوجھا۔ اس نے کئی ماہ پہلے فیصلہ کیا تھا کہ امریکہ کے لئے افغانستان میں بالواسطہ قسم کی ایسی کاروائی برقرار رکھنا ضروری ہے ، جس کی مدد سے اس خطّے کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے بچایا جائے ۔ چنانچہ افغانستان میں فوجیوں کی ہلاکتیں افسوس ناک ضرور ہیں ۔ لیکن وہ ایک ایسے مشن کا نتیجہ ہیں، جو ضروری ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ افغانستان کے بنیادی مسائیل صرف افغانستان کے اندر ہی سے سُلجھائے جا سکتے ہیں۔ جس کی کہ مستقبل قریب میں کوئی امّید نہیں، اور تاریخ دانوں کی بحث ا س بات پر مرکوز رہےگی، کہ ایسی امید کا موقع اُس وقت ہاتھ سے نکل گیا تھا، جب بُش انتظامیہ نے افغانستان میں القاعدہ کو ٹھکانے لگانےکی جگہ عراق میں صدّام حسین کی حکومت برطرف کرنے کا فیصلہ کیا۔ سنہ 2014 میں ایک روز افغانستان سے کہا جائے گا ۔کہ وہ سیکیورٹی کی تمام ذمہ داریاں خود سنبھالے۔اور یہ بات یقینی نہیں ہے کہ آیا افغان فوجیں اس وقت اس کے لئے تیار ہونگی یا نہیں ، اور اس طرح امریکہ کو ایک بار پھر یہ فیصلہ کرنا ہوگا۔ کہ آیا اُسےاس ملک میں مزید رکنا چاہئے ،یا نکل آنا چاہئے۔ جو پہلے فیصلے کے مقابلے میں کم آسان فیصلہ نہیں ہوگا۔
ڈیٹرائٹ فری پریس
اخبار ڈیٹرائٹ فری پریس ایک ادارئے میں کہتا ہےکہ امریکہ اور دوسرے ممالک ،جو ایران کو اپنے جوہری عزائم سے باز رکھنے میں پُر عزم ہیں، یہ باور کرنے لگے تھے کہ اس ملک کے خلاف لگائی گئی تعزیرات کار گر ثابت ہو رہی ہیں۔ لیکن جیسا کہ اوباما انتظامیہ نے تسلیم کیا ہے ۔ یہ تعزیرات عراق کی حرکتوں کی وجہ سے بے اثر ہو رہی ہیں، جی ہاں اُسی عراق کی وجہ سے جس پر امریکی ٹیکس گُذاراُنہیں صدّام حسین کی آہنی گرفت سے آزاد کرانے کےلئے اربوں ڈالر خرچ کر چکے ہیں ، اور پھر مزید اربوں ڈالر اس کی نوزائیدہ جمہوری حکومت کو سہارا دینے پر لُٹا چُکے ہیں۔ تاکہ یہ حکومت ایران کے خلاف ایک ڈھال کا کام دے۔ اخبار کا سوال ہے کہ نوری المالکی کی حکومت کے ارکان کیوں احمدی نجاد کی حکومت کی ایرانی تیل کو سمگل کرانے میں امداد کر رہے ہیں ، اور اس کے لئے عراق کے الف اسلامی بینک کا استعمال کیا جا رہا ہے۔ اور یہ بینک عراق کے مالیاتی اداروں کے نیٹ ورک کا محض ایک حصّہ ہے جس کے ذریعے امریکی ڈالر ایران منتقل کئے جا رہے ہیں۔