امریکی وزیر دفاع، لیان پینیٹا کے بقول جنرل کیانی نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وزیرستان میں جانے کا منصوبہ مرتب کر لیا گیا ہے۔ اور ایسا لگ رہا ہے کہ وہ یہ قدم جلد اٹھانے والے ہیں
وال سٹریٹ جرنل
وال سٹریٹ جرنل میں ایسوسی ایٹڈ پریس کے حوالے سے ایک رپورٹ میں امریکی وزیر دفاع سے یہ بیان منسوب کیا گیا ہے کہ پاکستان عنقریب افغان سرحد سے ملحق اُس قبائیلی علاقے میں طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کرنے والا ہے ۔ جو القاعدہ کے اتھادی حقانی نیٹ ورک کے لیڈروں کی بھی پناہ گاہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی فوج کےسربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نےمجوّزہ آپریشن کی تفصیلات پر افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل جان ایلن سےحال ہی میں بات چیت کی ہے ۔ مسٹر پینیٹا کا کہنا تھا کہ یہ اوپریشن مستقبل قریب میں ہوگا اور اس کااصل ہدف حقانی نیٹ ورک سے زیادہ پاکستانی طالبان ہونگے۔
مسٹر پینیٹا کا یہ بیان وال سٹریٹ جرنل کی دو ہفتے قبل کی اس رپورٹ کے بعد آیا ہے ،کہ امریکہ اور پاکستان کے عہدہ دار افغانستان اور پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی ایک مشترکہ کاروائی کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
اخبار کہتا ہے ۔ کہ امریکہ کو اس پر عرصے سے مایوسی تھی کہ اسلام آباد اُن افغان طالبان جنگجؤوں اور ان کے اتحادیوں کے خلاف کاروائی کرنے پر تیار نہیں تھا ۔ جوپاکستان کی سرزمین ، افغانستان میں امریکی اور اس کی اتحادی فوجوں پر حملے کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے ، بہت سے تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پاکستان کو اُن تنظیموں کو نشانہ بنانے میں تامّل ہے ، جن کے ساتھ اس کے مضبوط تاریخی روابط رہے ہیں ، اور جو افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلاء کے بعد مُفید اتحادی ثابت ہو سکتے ہیں۔
اب مسٹر پینیٹا کا کہنا ہے کہ ایک امریکی فضائی حملے میں 24 پاکستانی سپاہیوں کی ہلاکت اور سرحدکے آرپار آمدورفت بند ہونے کے بعد پاکستانی فوج کے ساتھ باہمی تعلّقات میں حال ہی میں کافی بہتری آئی ہے۔مسٹر پینیٹا کے بقول جنرل کیانی نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وزیرستان میں جانے کا منصوبہ مرتب کر لیا گیا ہے۔ اور ایسا لگ رہا ہے کہ وہ یہ قدم جلد اٹھانے والے ہیں۔
وال سٹریٹ جرنل کے مطابق پاکستان نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی طالبان جنگجؤٴون کے خلاف جاری جنگ میں پاکستانی فوج پہلے ہی بہت زیادہ پھیل چکی ہیں،پاکستان نے نیٹو اور افغانستان پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ پاکستان کے جو جنگجو افغانستان میں چُھپے ہوئے ہیں۔ وہ انہیں سرحد پار کر کے پاکستان پر حملے کرنے سے نہیں روکتے ۔
نیویارک ٹائمز
ایران اور اسرائیل کے عنوان سے نیو یارک ٹائمز ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ جوہری مسلے کا حل فوجی کاروائی نہیں ، بلکہ سفارت کاری ہے۔ اخبار کے خیال میں اسرائیلی لیڈروں نےایران کے خلاف امکانی فوجی کاروائی کی جو رٹ لگا رکھی ہے۔وہ اگر ایک طرف کُھلی شرارت ہے۔ تو دوسری طرف غیر ذمہ دارانہ حرکت ۔ خاص طور پر جب سفارت کاری کے لئے ابھی وقت ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ اگر ایران جوہری بم حاصل کرتا ہے ۔ تو پھر اس خطے کے دوسرے ملک بھی اپنا بم بنا نا چاہیں گے۔ لیکن اخبار کہتا ہے کہ باوجودیکہ اسرائیلی وزیر دفاع یہود براک نے اسرائیلی ریڈیو پر دعویٰ کیا ہے کہ ایران نے جوہری بم بنانے کی صلاحیت میں کافی پیش رفت کر لی ہے۔ اور اس کے ثبوت میں نئی امریکی انٹیلی جینس کا حوالہ بھی دیا ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ایران دہماکہ کرنے والاہے ۔ اور اوباما انتظامیہ کا برابر یہ اصرار ہے کہ ایران ابھی یہ ہتھیار تیار کرنے کے مرحلے تک نہیں پہنچا ہے۔اخبار یہ سمجھنے سے قاصر ہے ، کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو امریکہ کی اس اپیل کوکیوں نظر انداز کر رہے ہیں کہ سفارت کاری کو موقع دیا جائے۔اور یہ قیاس آرائیاں زور پکڑ رہی ہیںکہ وہ آنے والے ہفتوں میں حملہ کرنے والے ہیں، کیونکہ و ہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے ایسا کیا ، توصدر اوباما اپنی انتخابی مجبوریوں کے پیش نظر اس حملے کی حمایت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے
نیو یارک ٹائمز کہتا ہے کہ اس یں شبہ نہیں کہ اب تک مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ اوراس کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ سفارت کاری اور اقتصادی تعزیرات کے نتیجے میں ایران اپنے عزائم سے باز آ جائے گا۔ لیکن بھر پُور سفارت کاری کے لئے اب بھی وقت ہے ،اچھا تو یہی ہوگا ۔ کہ بڑی طاقتیں اپنا اتّحاد برقرار رکھیں اوراسرائیلی لیڈر غیر ذمہ دارانہ بیان بازی سے احتراز کریں۔
نیویارک نیوز ڈے
نیو یارک نیوز ڈے اخبار ایک ادارئے میں کہتا ہے امریکہ کا ڈاک کا نظام قریب قریب دیوالیہ ہو چکا ہے اس سال اپریل اور جُون کے درمیانی عرصے میں اس کا خسارہ پانچ ارب سے زیادہ تھا یعنی پچھلے سال اسی سہ ماہی کے مقابلے میں دوگنا۔ کئی ماہ سے کانگریس نے اس محکمے کی یہ درخواست نظر انداز کر رکھی ہے کہ اُسے بعض سروسز بند کرنے کی اجاز ت دی جائے ۔ اخبار کہتا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ کوئی قدم اُتھایا جائے ، قبل اس کے کہ لیٹربکس قصہء پارینہ ہو کر ر ہ جائیں۔
وال سٹریٹ جرنل میں ایسوسی ایٹڈ پریس کے حوالے سے ایک رپورٹ میں امریکی وزیر دفاع سے یہ بیان منسوب کیا گیا ہے کہ پاکستان عنقریب افغان سرحد سے ملحق اُس قبائیلی علاقے میں طالبان عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کرنے والا ہے ۔ جو القاعدہ کے اتھادی حقانی نیٹ ورک کے لیڈروں کی بھی پناہ گاہ ہے۔ رپورٹ کے مطابق پاکستانی فوج کےسربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نےمجوّزہ آپریشن کی تفصیلات پر افغانستان میں امریکی کمانڈر جنرل جان ایلن سےحال ہی میں بات چیت کی ہے ۔ مسٹر پینیٹا کا کہنا تھا کہ یہ اوپریشن مستقبل قریب میں ہوگا اور اس کااصل ہدف حقانی نیٹ ورک سے زیادہ پاکستانی طالبان ہونگے۔
مسٹر پینیٹا کا یہ بیان وال سٹریٹ جرنل کی دو ہفتے قبل کی اس رپورٹ کے بعد آیا ہے ،کہ امریکہ اور پاکستان کے عہدہ دار افغانستان اور پاکستان میں انسداد دہشت گردی کی ایک مشترکہ کاروائی کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
اخبار کہتا ہے ۔ کہ امریکہ کو اس پر عرصے سے مایوسی تھی کہ اسلام آباد اُن افغان طالبان جنگجؤوں اور ان کے اتحادیوں کے خلاف کاروائی کرنے پر تیار نہیں تھا ۔ جوپاکستان کی سرزمین ، افغانستان میں امریکی اور اس کی اتحادی فوجوں پر حملے کرنے کے لئے استعمال کرتے تھے ، بہت سے تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ پاکستان کو اُن تنظیموں کو نشانہ بنانے میں تامّل ہے ، جن کے ساتھ اس کے مضبوط تاریخی روابط رہے ہیں ، اور جو افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے انخلاء کے بعد مُفید اتحادی ثابت ہو سکتے ہیں۔
اب مسٹر پینیٹا کا کہنا ہے کہ ایک امریکی فضائی حملے میں 24 پاکستانی سپاہیوں کی ہلاکت اور سرحدکے آرپار آمدورفت بند ہونے کے بعد پاکستانی فوج کے ساتھ باہمی تعلّقات میں حال ہی میں کافی بہتری آئی ہے۔مسٹر پینیٹا کے بقول جنرل کیانی نے اس بات کا عندیہ دیا ہے کہ وزیرستان میں جانے کا منصوبہ مرتب کر لیا گیا ہے۔ اور ایسا لگ رہا ہے کہ وہ یہ قدم جلد اٹھانے والے ہیں۔
وال سٹریٹ جرنل کے مطابق پاکستان نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستانی طالبان جنگجؤٴون کے خلاف جاری جنگ میں پاکستانی فوج پہلے ہی بہت زیادہ پھیل چکی ہیں،پاکستان نے نیٹو اور افغانستان پر یہ الزام بھی لگایا ہے کہ پاکستان کے جو جنگجو افغانستان میں چُھپے ہوئے ہیں۔ وہ انہیں سرحد پار کر کے پاکستان پر حملے کرنے سے نہیں روکتے ۔
نیویارک ٹائمز
ایران اور اسرائیل کے عنوان سے نیو یارک ٹائمز ایک ادارئے میں کہتا ہے کہ جوہری مسلے کا حل فوجی کاروائی نہیں ، بلکہ سفارت کاری ہے۔ اخبار کے خیال میں اسرائیلی لیڈروں نےایران کے خلاف امکانی فوجی کاروائی کی جو رٹ لگا رکھی ہے۔وہ اگر ایک طرف کُھلی شرارت ہے۔ تو دوسری طرف غیر ذمہ دارانہ حرکت ۔ خاص طور پر جب سفارت کاری کے لئے ابھی وقت ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ اگر ایران جوہری بم حاصل کرتا ہے ۔ تو پھر اس خطے کے دوسرے ملک بھی اپنا بم بنا نا چاہیں گے۔ لیکن اخبار کہتا ہے کہ باوجودیکہ اسرائیلی وزیر دفاع یہود براک نے اسرائیلی ریڈیو پر دعویٰ کیا ہے کہ ایران نے جوہری بم بنانے کی صلاحیت میں کافی پیش رفت کر لی ہے۔ اور اس کے ثبوت میں نئی امریکی انٹیلی جینس کا حوالہ بھی دیا ہے۔ لیکن حقیقت میں ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ایران دہماکہ کرنے والاہے ۔ اور اوباما انتظامیہ کا برابر یہ اصرار ہے کہ ایران ابھی یہ ہتھیار تیار کرنے کے مرحلے تک نہیں پہنچا ہے۔اخبار یہ سمجھنے سے قاصر ہے ، کہ اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو امریکہ کی اس اپیل کوکیوں نظر انداز کر رہے ہیں کہ سفارت کاری کو موقع دیا جائے۔اور یہ قیاس آرائیاں زور پکڑ رہی ہیںکہ وہ آنے والے ہفتوں میں حملہ کرنے والے ہیں، کیونکہ و ہ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے ایسا کیا ، توصدر اوباما اپنی انتخابی مجبوریوں کے پیش نظر اس حملے کی حمایت کرنے پر مجبور ہو جائیں گے
نیو یارک ٹائمز کہتا ہے کہ اس یں شبہ نہیں کہ اب تک مذاکرات میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ اوراس کی بھی کوئی ضمانت نہیں کہ سفارت کاری اور اقتصادی تعزیرات کے نتیجے میں ایران اپنے عزائم سے باز آ جائے گا۔ لیکن بھر پُور سفارت کاری کے لئے اب بھی وقت ہے ،اچھا تو یہی ہوگا ۔ کہ بڑی طاقتیں اپنا اتّحاد برقرار رکھیں اوراسرائیلی لیڈر غیر ذمہ دارانہ بیان بازی سے احتراز کریں۔
نیویارک نیوز ڈے
نیو یارک نیوز ڈے اخبار ایک ادارئے میں کہتا ہے امریکہ کا ڈاک کا نظام قریب قریب دیوالیہ ہو چکا ہے اس سال اپریل اور جُون کے درمیانی عرصے میں اس کا خسارہ پانچ ارب سے زیادہ تھا یعنی پچھلے سال اسی سہ ماہی کے مقابلے میں دوگنا۔ کئی ماہ سے کانگریس نے اس محکمے کی یہ درخواست نظر انداز کر رکھی ہے کہ اُسے بعض سروسز بند کرنے کی اجاز ت دی جائے ۔ اخبار کہتا ہے کہ وقت آگیا ہے کہ کوئی قدم اُتھایا جائے ، قبل اس کے کہ لیٹربکس قصہء پارینہ ہو کر ر ہ جائیں۔