مسٹر رامنی نے لبیا میں ہونے والی ہلاکتوں کو مسٹر اوبامہ پر تنقیدی حملے کرنے کا بہانہ بنا کر ایسی حرکت کی ہے جو صدارت کے متمنی کسی شخص کے شایانِ شان نہیں ہے: نیو یارک ٹائمز
لیبیا میں امریکی سفیر جان سٹیون کی ہلاکت پر ’نیویارک ٹائمز‘ ایک اداریے میں کہتا ہے کہ سفیر اور مزید تین امریکیوں کے قتل کے باوجود امریکہ کو لبیا کے ساتھ اپنے روابط برقرار رکھنے چاہئیں۔
اخبار کہتا ہے کہ لبیا اور اُس کے جمہوریت نواز انقلابیوں کے لیے سٹیونز سے بہتر دوست نہیں ہوسکتا تھا اور صدر اوبامہ نے اس بہیمانہ حرکت کی مذمت کرتے ہوئے اس کے لیے ذمہ دار افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا جو عہد کیا ہے اس کو دونوں بڑی امریکی سیاسی پارٹیوں کی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔
لیکن، مسٹر رامنی اِس میں شامل نہیں ہیں جو امریکیوں کو باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ صدر بننے کے اہل ہیں۔ لیکن، اُنھوں نے لبیا میں اِن ہلاکتوں کو مسٹر اوبامہ پر تنقیدی حملے کرنے کا بہانہ بنا کر ایسی حرکت کی ہے جو صدارت کے متمنی کسی شخص کے شایانِ شان نہیں ہے۔ خاص طور پر اُن کا یہ الزام کی انتظامیہ کی کارروئیاں امریکی سفارتی دفتر پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ ہیں جِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حقائق سے خطرناک حد تک بے خبر تھے یا پھر جان کر حقائق کو توڑ مروڑ رہے تھے۔
بدھ کو امریکی انتظامیہ نے کہا ایسا لگ رہا ہے کہ مارٹر گولوں اور راکیٹوں سے لیس ایک منظم گروہ اسلام کے خلاف اس وڈیو کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے یہ حملہ کرنے پر تلا ہوا تھا اور بعض اطلاعات کے مطابق اس میں القاعدہ کا بھی ہاتھ ہوگا، کیونکہ مصر میں اس کے برعکس اس وڈیو کے خلاف احتجاج کرنے والے نہتے تھے جنھوں نے قاہرہ میں امریکی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا اور اس کا پرچم پھاڑ ڈالا لیکن اور کوئی نقصان نہیں کیا۔
آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے:
اخبار کہتا ہے کہ اس وقت امریکہ کے لیے اس سے بدتر بات نہیں ہوسکتی کہ لبیا اور مصر سے کیے ہوئے وعدوں سے منہ موڑ ے جو اپنے معاشروں کی تعمیر نو کر رہے ہیں۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ نے بھی ایک اداریے میں اس واقعے پر ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار مٹ رامنی کے طرز عمل پر کڑی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ جس فلم کی وجہ سے یہ احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں اور جس میں پیغمبرِ اسلام کا تمسخُر اڑایا گیا ہے اور مسلمانوں کو اخلاق سے گرا ہوا اور شدت پسند بیان کیا گیا ہے وہ تعصب کی مذموم مثال ہے اور تعجب ہے کہ مسٹر رامنی کے پاس ایک عظیم مذہبی عقیدے کی طرف اس منافرت کے مذمت کرنے کے لیے کوئی الفاظ نہ تھے۔
اخبار نے صدر اوبامہ کے اس بیان کو سراہا جس میں دوسرے مذاہب کے عقیدمندوں کی تذلیل کی کوشش کی مذمت کی گئی ہے اور مقتول سفیر جان سٹیونز کی خدمات کی تعریف کرتے ہوئے اُن کی ہلاکت کے لیے ذمہ دار افراد کے انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عہد کیا گیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ ڈکٹیٹرمعمر قذافی کا تختہ الٹے جانے کے بعد لبیا میں مسلح گروہوں نے سر اٹھایا ہے جو نئی حکومت کو نہیں مانتے اور امریکہ کو اس حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیئے کہ وہ انصار الشریعہ اور دوسری اُن جہادی تنظیموں کے خلاف کارروائی کرے جنھوں نے مشرقی لبیا میں قدم جمائے ہیں۔
’لاس انجلیس ٹائمز ‘نے بھی مسٹر رامنی کے بیان کو موقع پرستی کی ایک مثال قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے مقابلے میں صدر اوبامہ وزیر خارجہ ہلری کلنٹن اور کانگریس کے بعض ری پبلیکن ارکان نے اس موقع پر مرنے والوں کی تعزیت کی ہے اور اُن کی خدمات کو سراہا ہے۔
’یو ایس اے ٹوڈے ‘کہتا ہے کہ لبیا میں امریکی سفارتی دفتر پر حملہ کرنے والوں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ احتجاجی مظاہرین کی تعداد ہزاروں میں تھی اور منظم لگ رہے تھے۔ لیکن، یہ نہیں معلوم کہ وہ امریکہ دشمن تھے، اسلامی انتہا پسند یا قذافی کے بچے کھچے لوگ۔
بہرحال، اُن کا کھوج لگانا ضروری ہے اور وہ بھی لبیا کی جمہوری حکومت کے ساتھ مل کر جس نے اس حملے پر معافی بھی مانگی ہے۔
البتہ مصر کا معاملہ مشکل ہوسکتا ہے جہاں کے صدر محمد مرسی نے اسلام دشمن فلم کی تو مذمت کی ہے، لیکن امریکی سفارت خانے پر جو حملہ ہوا ہے اُس پر خموشی اختیار کی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ لبیا اور اُس کے جمہوریت نواز انقلابیوں کے لیے سٹیونز سے بہتر دوست نہیں ہوسکتا تھا اور صدر اوبامہ نے اس بہیمانہ حرکت کی مذمت کرتے ہوئے اس کے لیے ذمہ دار افراد کو کیفرِ کردار تک پہنچانے کا جو عہد کیا ہے اس کو دونوں بڑی امریکی سیاسی پارٹیوں کی پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔
لیکن، مسٹر رامنی اِس میں شامل نہیں ہیں جو امریکیوں کو باور کرانے کی کوشش کررہے ہیں کہ وہ صدر بننے کے اہل ہیں۔ لیکن، اُنھوں نے لبیا میں اِن ہلاکتوں کو مسٹر اوبامہ پر تنقیدی حملے کرنے کا بہانہ بنا کر ایسی حرکت کی ہے جو صدارت کے متمنی کسی شخص کے شایانِ شان نہیں ہے۔ خاص طور پر اُن کا یہ الزام کی انتظامیہ کی کارروئیاں امریکی سفارتی دفتر پر حملہ کرنے والوں کے ساتھ ہیں جِس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ حقائق سے خطرناک حد تک بے خبر تھے یا پھر جان کر حقائق کو توڑ مروڑ رہے تھے۔
بدھ کو امریکی انتظامیہ نے کہا ایسا لگ رہا ہے کہ مارٹر گولوں اور راکیٹوں سے لیس ایک منظم گروہ اسلام کے خلاف اس وڈیو کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے یہ حملہ کرنے پر تلا ہوا تھا اور بعض اطلاعات کے مطابق اس میں القاعدہ کا بھی ہاتھ ہوگا، کیونکہ مصر میں اس کے برعکس اس وڈیو کے خلاف احتجاج کرنے والے نہتے تھے جنھوں نے قاہرہ میں امریکی سفارت خانے پر دھاوا بول دیا اور اس کا پرچم پھاڑ ڈالا لیکن اور کوئی نقصان نہیں کیا۔
آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے:
Your browser doesn’t support HTML5
اخبار کہتا ہے کہ اس وقت امریکہ کے لیے اس سے بدتر بات نہیں ہوسکتی کہ لبیا اور مصر سے کیے ہوئے وعدوں سے منہ موڑ ے جو اپنے معاشروں کی تعمیر نو کر رہے ہیں۔
’واشنگٹن پوسٹ‘ نے بھی ایک اداریے میں اس واقعے پر ری پبلیکن پارٹی کے صدارتی امیدوار مٹ رامنی کے طرز عمل پر کڑی تنقید کی ہے اور کہا ہے کہ جس فلم کی وجہ سے یہ احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں اور جس میں پیغمبرِ اسلام کا تمسخُر اڑایا گیا ہے اور مسلمانوں کو اخلاق سے گرا ہوا اور شدت پسند بیان کیا گیا ہے وہ تعصب کی مذموم مثال ہے اور تعجب ہے کہ مسٹر رامنی کے پاس ایک عظیم مذہبی عقیدے کی طرف اس منافرت کے مذمت کرنے کے لیے کوئی الفاظ نہ تھے۔
اخبار نے صدر اوبامہ کے اس بیان کو سراہا جس میں دوسرے مذاہب کے عقیدمندوں کی تذلیل کی کوشش کی مذمت کی گئی ہے اور مقتول سفیر جان سٹیونز کی خدمات کی تعریف کرتے ہوئے اُن کی ہلاکت کے لیے ذمہ دار افراد کے انصاف کے کٹہرے میں لانے کا عہد کیا گیا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ ڈکٹیٹرمعمر قذافی کا تختہ الٹے جانے کے بعد لبیا میں مسلح گروہوں نے سر اٹھایا ہے جو نئی حکومت کو نہیں مانتے اور امریکہ کو اس حکومت پر دباؤ ڈالنا چاہیئے کہ وہ انصار الشریعہ اور دوسری اُن جہادی تنظیموں کے خلاف کارروائی کرے جنھوں نے مشرقی لبیا میں قدم جمائے ہیں۔
’لاس انجلیس ٹائمز ‘نے بھی مسٹر رامنی کے بیان کو موقع پرستی کی ایک مثال قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے مقابلے میں صدر اوبامہ وزیر خارجہ ہلری کلنٹن اور کانگریس کے بعض ری پبلیکن ارکان نے اس موقع پر مرنے والوں کی تعزیت کی ہے اور اُن کی خدمات کو سراہا ہے۔
’یو ایس اے ٹوڈے ‘کہتا ہے کہ لبیا میں امریکی سفارتی دفتر پر حملہ کرنے والوں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ احتجاجی مظاہرین کی تعداد ہزاروں میں تھی اور منظم لگ رہے تھے۔ لیکن، یہ نہیں معلوم کہ وہ امریکہ دشمن تھے، اسلامی انتہا پسند یا قذافی کے بچے کھچے لوگ۔
بہرحال، اُن کا کھوج لگانا ضروری ہے اور وہ بھی لبیا کی جمہوری حکومت کے ساتھ مل کر جس نے اس حملے پر معافی بھی مانگی ہے۔
البتہ مصر کا معاملہ مشکل ہوسکتا ہے جہاں کے صدر محمد مرسی نے اسلام دشمن فلم کی تو مذمت کی ہے، لیکن امریکی سفارت خانے پر جو حملہ ہوا ہے اُس پر خموشی اختیار کی ہے۔