امریکی اخبارات سے: لبیا اور مصر کے مشتعل ہجوم

امریکی سفیر لیبیا میں ہلاک

دونوں ملکوں میں غم و غصے کی وجہ کیلی فورنیا میں رہنے والے ایک اسرائیلی فلم ساز کی تیار کردہ فلم ہے جِس میں پیغمبر اسلام کا تمسخر اڑایا گیا۔ اس فلم کےبعض حصّوں کو عربی زبان میں ڈب کرکے یُو ٹُیوب پر ڈال دیا گیا تھا
اسلام کے بارے میں ایک متنازعہ فلم منظر عام پر آنے کے بعد مشتعل ہجوموں نے لبیا اور مصر میں امریکی سفارتی دفاتر پر حملے کئے ہیں جس دوراں لبیا میں امریکی سفیر کرٕس سٹیونز کو ہلاک کر دیا گیا۔

’لاس اینجلس ٹائمز‘ کہتا ہے کہ دونوں ممالک میں امریکہ کے خلاف یہ اس قسم کے پہلے حملے ہیں اور یہ ایسے وقت کئے گئے ہیں جب دونوں ملکوں میں اُس خلفشار پر قابو پانے کی کوشش کی جا رہی ہے جو اُن پر عرصے سے مسلّط مطلق العنان لیڈروں ، معمر قذافی اورحسنی مبارک کو پچھلے سال عوامی بغاوتوں میں اقتدار سےہٹانے کے بعد پیدا ہوا تھا۔

دونوں ملکوں میں غم و غصے کی وجہ کیلی فورنیا میں رہنے والے ایک اسرائیلی فلم سازکی تیار کردہ فلم ہے جس میں پیغمبر اسلام کا تمسخر اڑایا گیا۔اس فلم کےبعض حصّوں کو عربی زبان میں ڈب کرکے یُو ٹُیوب پر ڈال دیا گیا تھا۔
عربی اور فرانسیسی زبانیں بولنے والے امریکی سفیر کرس سٹیونز دو بار لبیا میں سفیر رہ چکے تھے۔ لبیا میں بغاوت کے دوران انہوں نے بن غازی میں اپنے سفارتی دفتر کھول رکھا تھا۔

’ لاس انجلس ٹائمز‘کہتا ہے کہ اس سے پہلے امریکہ کی سفارتی تاریخ میں پانچ امریکی سفیروں کو ہلاک کیا جا چُکا ہےاور اس کا آخری نشانہ بننے والےسفیر ایڈالف ڈبس تھے جنھیں افغانستان میں سنہ1979 میں ہلاک کیا گیا تھا۔

آڈیو رپورٹ سننے کے لیے کلک کیجیئے:

Your browser doesn’t support HTML5

امریکی اخبارات سے



’ شکاگو ٹریبیوں‘ کہتا ہے کہ دنیا میں کئی جگہ نزاعی کیفیت کی وجہ سے عالمی امن اور استحکام کو خطرہ لاحق ہے ۔ مثلاً خلیج فارس ، اسرائیل اور اُس کے پڑوسی اور پاک افغان سرحد ۔ انہیں میں سے ایک جنوبی چین کا سمندر ہے جہاں علاقائی دعاوی اور قوموں کے عزائم کی وجہ سے کشیدگی کو ہوا دی جا رہی ہے۔

چین کا اس سمندر میں واقع متعدد جزیروں کی ملکیت پر پڑوسیوں کے ساتھ اس کا جھگڑا چل رہا ہے۔ چند ماہ قبل چینی اور فلیپینی بحریہ کے جہازوں کے درمیان ایک کم گہرائی والےمتنازعہ سمندری علاقے میں محاذ آرائی شروع ہو گئی تھی۔ مارچ میں چین نے ویت نام کے ماہی گیروں کو حراست میں لے لیا تھاجن پر اس نے پے را سیل جزیروں کے قریب غیر قانونی طور پر مچھلیاں پکڑنے کا الزام لگایا تھا۔ان جزیروں پر چین نے علاقے کے دوسرے ملکوں کے احتجاج کی پرواہ نہ کرتے ہوئے قبضہ کر لیا تھا۔

رواں موسم گرما میں بیجنگ نےسپراٹلی کے جزیروں میں سے ایک پر اپنی فوجیں متعیّن کرنے کا اعلان کیا تھا۔ان جزیروں پر ویت نام نے بھی ملکیت کا دعویٰ کر رکھاہے۔ مشرقی چین کے سمندر میں بھی کچھ ایسے جزیرے ہیں جن پر چین کا جاپان کے ساتھ زور شور سے جھگڑا چل رہا ہے۔

اخبار کہتاہے کہ یہ تنازعے اس وجہ سے طول پکڑ رہے ہیں کہ چین اس علاقے میں اپنے آپ کو مسلّط کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور اس علاقے میں اپنی تاریخی حاکمیت اعلیٰ کو بحال کرنا چاہتا ہے ، اب علاقے میں تیل اور دوسرے قدرتی وسائیل کی دریافت سے مزید پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں۔

لیکن، اس عدم اتفاق کے مضمرات علاقے سے ماوریٰ بھی جاتے ہیں ۔بحرالکاہل میں اور دنیا بھر میں ایک غالب بحری طااقت کی حیثیت سے امریکہ کا مفاد اس میں ہے کہ اس علاقے میں جہازرانی پر کوئی روک ٹوک نہ ہو ، امریکہ آزدانہ جہازرانی کو عالمی تجارت کےلئے اہم سمجھتا ہے ۔ کیونکہ، یہ تجارت بیشتر سمندری راستوں سے ہوتی ہے۔ چنانچہ، جب پچھلے ہفتے وزیرخارجہ ہلری کلنٹن نےچین کا دورہ کیا تو علاقائی مذاکرات کے لئے ان کی تجویز کو ٹھکرا دیا گیا۔

اخبار کہتا ہے کہ علاقے کے بعض ملکوں کے ساتھ ماضی کے کچھ اختلافات سے قطع نظر یہ سب ملک جانتے ہیں کہ وہ بیجنگ کے مقابلے میں امریکہ پر کہیں زیادہ اعتماد کر سکتے ہیں۔کیونکہ، اس کے کوئی علاقائی عزائم نہیں ہیں۔

’ وال سٹریٹ جرنل ‘ کے مطابق اسرئیل اور امریکہ کے لیڈروں کے مابین اس بات پر اختلافات بڑھ گئے ہیں کہ ایران کے جوہری پروگرام کے مسئلے سے کس طرح نمٹا جائے۔اخبار کہتا ہےکہ کشیدگی اس قدر بڑھ گئی تھی کہ صدر اوباما نے اسرائیلی وزیر اعظم کے ساتھ ٹیلیفون پر ایک گھنٹہ گُذارا۔ اس سے پہلے امریکی صدر نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے دوران اسرائیلی وزیر اعظم سے ملنے سے اپنی معذوری کا اظہار کیا تھا اور کہاتھا کہ ملاقات کہیں اور ہو سکتی ہے ۔

وہائٹ ہاؤس کی طرف سے ایک بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نیتن یاہو نے صدر کے ساتھ ایران کو جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے باز رکھنے پر بات چیت جاری رکھنے پر آمادگی ظاہر کی تھی۔

’ وال سٹریٹ جرنل ‘ کا کہنا ہے کہ ایران سے نمٹنے میں صدر اوباما کا زور سفارت کاری اوراس کے خلاف تعزیرات لگانے پر رہا ہے۔ اس کے برعکس مسٹر نیتن یاہو کو اصرار رہا ہے کہ ریڈ لائینز کا تعیّن کیا جائے جِن کو اگر ایران نے نظر انداز کیا تو امریکہ کی طرف سے فوجی کاروائی شروع ہونی چاہئیے۔

چنانچہ، اخبار کہتا ہے کہ یہ اختلاف مسٹر اوباما کے لئے ایک ایسے نازُک مرحلے پر آیا ہے جب وہ دوبارہ صدر منتخب ہونے کی مہم میں مصروف ہیں۔ اور اُدھر ایران کے جوہری پروگرام پر دُنیا بھر میں ہنگامہ اٹھ کھڑا ہو ا ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ مسٹر نیتن یاہو کے موقف سے واشنگٹن میں تشویش بڑھ گئی ہے کہ وہائٹ ہاؤس کی ایران پالیسی پر إن حملوں کا مقصد امریکہ میں آنے والے انتخابات پر اثر انداز ہونا ہے ۔ اور جیسا کہ اخبار نے بتایا ہے مسٹر نیتن یاہو کے مشیر حالیہ مہینوں کے دوران کہتے آئے ہیں کہ مسٹر رامنی کی انتظامیہ ایرانی جوہری پروگرام اور دوسرے امور پر اسرائیلی حکومت سے زیادہ ہم آہنگ ہوگی ۔