امریکی اخبارات سے: افغانستان کے استحکام میں پاکستان کا کردار

)

افغانستان اور اس کے گرد خطے میں کامیاب نتائج کا دارومدارتین باتوں پر ہے۔ ایک تو افغانستان سے مغربی فوجوں کی نہائت محتاط واپسی، دوسرے طالبان کے ساتھ ایک سیاسی تصفیہ، اور تیسرے پاکستان کو اس پر تیا ر کرنا کہ وہ اسلامی انتہا پسندی کو لگام دے گا۔

فلاڈلفیا ڈایکوئیرر کے ایک کالم میں ٹُروڈی رُوبَن رقمطراز ہیں کہ کیا امریکہ کے لئے یہ ممکن ہے کہ وہ افغانستان سے باوقار طریقے سے نکل آئے اور اپنے پیچھے ایک مُستحکم ملک چھوڑ آئے۔ ان کا کہناہے کہ اس کا انحصارپاکستان پر ہے۔ وہ یہ کہ اُسے افغان طالبان کو اور دوسرے اسلامی انتہا پسندوں کو پناہ دینا بند کرنا پڑے گا ۔ اور اس کی وجہ پاکستانی صحافی احمد رشید کی تازہ کتاب پاکستان آن دی برِنک پڑھنے سے سمجھ میں آتی ہے ۔ اس کتاب کی اہمیت ایسے میں اور بھی بڑھ جاتی ہے جب امریکہ اور پاکستان باہمی تعلّقات کو ٹھیک کرنے کی کو شش کر رہے ہیں۔جو نومبر میں تقریباًٹوٹنے کے قریب پہنچ چکے تھے ، جب ایک امریکی فضائی حملے میں غیر دانستہ طور پر24 پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

احمد رشید کہتے ہیں کہ پاک امریکی تعلّقات عرصے سے تناؤ کا شکار ہیں، جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ اس کے پیچھے بد دیانتی کار فرما رہی ہے۔ پاکستانیوں کا الزم ہے کہ اس کی وجہ ناقص امریکی پالیسیاں ہیں ۔ جنہوں نے افغانستان کو موجودہ حالت کو پہنچایا ہے جس کی وجہ سے پاکستان بھی متاثر ہو رہا ہے۔لیکن پاکستان نے اسلامی انتہا پسندو ں کو سراہنے کی جو پالیسی اپنا رکھی ہے ۔ اُس کی وجہ سے افغانستان میں ایک پرامن سمجھوتے کا امکان ختم ہو جاتا ہے ۔ اور خانہ جنگی دوبارہ شروع ہونے کا خطرہ پیدا ہوتا ہے۔

رُوبن کا کہنا ہےکہ احمد رشید کی یہ بات بالکل صحیح ہےکہ امریکی عہدہ داروں نے اس کی وضاحت نہیں کی ہے کہ2014ء تک جب ان کی تمام فوجیں افغانستان سے نکل آئیں گی تو اس کے بعد اُن کے ذہن میں اس خطے کا کیا سٹریٹیجک تصوّر ہے، اُسےا حمد رشیدکے اس موقف سے اتفاق ہے کہ افغانستان اور اس کے گرد خطے میں کامیاب نتائج کا دارومدارتین باتوں پر ہے۔ ایک تو افغانستان سے مغربی فوجوں کی نہائت محتاط واپسی، دوسرے طالبان کے ساتھ ایک سیاسی تصفیہ، اور تیسرے پاکستان کو اس پر تیا ر کرنا کہ وہ اسلامی انتہا پسندی کو لگام دے گا۔

روبِن کے مطابق واشنگٹن میں احمد رشید نےانہیں ایک انٹرویو میں بتایا کہ انہیں اپنے ملک کے بارے میں بہت وسوسے ہیں کیونکہ اب تک اس کی جو خارجہ حکمت عملی رہی ہے وہ پاکستان کے لئے قطعی نقصان دہ ہے ۔ اور جب تک جنرلوں کی سوچ نہیں بدلے گی، بہتر پاک امریکی تعلقات یا افغانستان میں امن کے لئے کوئی زیادہ امید نظر نہیں آتی۔

پاکستان میں خواتین پر تیزاب پھینکنے کی بڑھتی ہوئی وارداتوں پر نیو یارک ٹائمز اخبار کے پہلے صفحے پرایک باتصویر رپورٹ چھپی ہے ۔ جس کے مطابق2010ءمیں ان وارداتوں کی تعداد 65تھی ، جو 2011ء تک بڑھ کر ڈیڑھ سو ہو گئی۔

یہ اعدادو شمار تیزاب سے سزا پانے والی ایک پاکستانی خاتون کے خود کُشی کے پس منظر میں سامنے آئے ہیں۔ فاخرہ یونس نامی اس خاتون پرایک شقی القلب پاکستانی مرد نے ایک عشرے قبل تیزاب پھینکا تھا، جس سے اس کا چہرہ ، اس کا منہ اور اس کی ناک عملی طور پر پگھل کر رہ گئی تھی۔

اخبار کہتاہے کہ اپنے وطن سے دُور روم نے فاخرہ کو پناہ دی تھی۔جہاں اجنبیوں نے اس کےعلاج کا بوجھ اُٹھایا اور اس دوران 38 بار اس کے چہرے کا اوپریشن ہوا۔ لیکنجہاں اطالوی ڈاکٹر اس کےچہرے کے زخموں کو مندمل کرنے کی کوشش میں مصروف تھے ۔ وُہاں کُچھ ایسے زخم بھی تھے ، جو ٹھیک ہونے کا نام ہی نہیں لیتے تھے۔ اخبار کہتا ہے کہ دس سال تک وُہ پاکستان کے لئے تڑپتی رہی۔ کیونکہ اس کو اپنے ملک سے پیا رتھاباوجودیکہ اس کا نظام عدل اُس کو انصاف نہ دے سکا تھا ۔ اور 17 مارچ کو فاخرہ نےاپنے اپارٹمنٹ کی عمارت کی چھٹی منزل پر چڑھ کر چھلانگ لگا دی۔اس کی عمر صرف 33 برس تھی۔

اس کی موت خبراس کے آبائی شہر کراچی پہنچی اور پھر تدفین کے لئے اس کے تابوت کے پہنچنے تک غم و غصّے کا ایک طوفان ملک بھر میں اُٹھ کھڑا ہوا۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ حرکت میں آگئے۔ ارکان پارلیمنت نے عہد کیا کہ وُہ اس کا مداوا کریں گے ۔ایک سیاسی لیڈر نے نے مطالبہ کیا کہ مقدّمے کی کاروائی دوبارہ شروع کی جائے۔ لیکن قانونی ماہرین کوشبہ تھاکہ یہ نا ممکن ہے کیونکہ فاخرہ نے تیزاب پھینکنے کا جس شخص پر الزام لگا یا تھا۔وہ اس کا اپناسابق خاوند بلال کھر تھا۔ جسے عدالت نو سال قبل پہلے ہی بری کر چُکی تھی۔ بیشتر تیزاب پھینکنے والوں کے بر عکس کھر کا تعلق دولت مند اور طاقتور گھرانے سے تھا اور ایک امیر اورسابق صوبائی گورنر کا بیٹا تھا۔حالیہ ہفتوں میں ٹیلی وژن پر آ کر بلال کھر نےبے قصور ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ اخبار کہتا ہے کہ اس سے اسے عوام کی کوئی ہمدردی حاصل نہ ہوئی۔بلکہ ناقدین کہتے ہیں کہ یہ واقعہ اس امر کا کُھلا ثبوت ہے کہ امیر لوگ انصاف کے شکنجے سے کس طرح صاف بچ نکلتے ہیں۔