امریکی اخبارات سے: شام کا بحران

دنیا گزشتہ ایک برس سے شامی حکومت کے ہاتھوں معصوم شہریوں کے قتلِ عام کا نظارہ کر رہی ہے۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ آگے بڑھے اور صدر بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کے لیے ایک بھرپور عالمی مہم کا آغاز کرے

اخبار'وال اسٹریٹ جرنل' نے امریکی حکومت کومشورہ دیا ہے کہ وہ شام کےلیےاقوامِ متحدہ کے خصوصی ایلچی کوفی عنان سے ناامید ہوکر بشارالاسد حکومت کےخاتمے کے لیے ازخود کوششیں کرے۔

اپنے ایک مضمون میں اخبار نے لکھا ہے کہ دنیا گزشتہ ایک برس سے شامی حکومت کے ہاتھوں معصوم شہریوں کے قتلِ عام کا نظارہ کر رہی ہے۔ لیکن اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ آگے بڑھے اور صدر بشارالاسد کے اقتدار کے خاتمے کے لیے ایک بھرپورعالمی مہم کا آغاز کرے۔

'وال اسٹریٹ جرنل' لکھتا ہے کہ اس مقصد کے لیے امریکہ کو فوری طور پر کئی سفارتی کوششیں کرنا ہوں گی اور سب سے پہلے شام میں قیامِ امن کی کوششوں میں مصروف اقوامِ متحدہ اور عرب لیگ کے خصوصی ایلچی کوفی عنان کی حمایت سے ہاتھ کھینچنا ہوگا۔

اخبار کا موقف ہے کہ شام میں سفارت کاری اس وقت تک بارآور ثابت نہیں ہوسکتی جب تک کہ اسد حکومت کی فوجی برتری ختم نہیں کردی جاتی۔ اخبار نے امریکی حکومت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ اتحادیوں کے ساتھ مل کر شام میں ایسے محفوظ علاقے قائم کرے جہاں شامی حزبِ اختلاف کے جنگجو خود کو منظم کرسکیں۔

'وال اسٹریٹ جرنل' لکھتا ہے کہ امریکہ کے اتحادی ممالک کو چاہیے کہ وہ شامی باغیوں کو ہتھیار فراہم کرنے اور انہیں تربیت دینے کی ذمہ داری سنبھالیں جب کہ امریکہ خود بھی اس کام کے لیے تیار رہے۔ اخبار کے مطابق شامی حزبِ اختلاف کی مدد کرنا اس لیے بھی ضروری ہے تاکہ مستقبل میں شام کی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہوا جاسکے۔

اخبار لکھتا ہے کہ امریکہ کے لیے شام کے کیمیائی ہتھیاروں کو اپنے قبضے میں لینا بھی انتہائی اہم ہے تاکہ انہیں غلط ہاتھوں میں جانے سے روکا جاسکے۔

'وال اسٹریٹ جرنل' لکھتا ہے کہ ان تمام تر اقدامات کے ساتھ ساتھ امریکہ اورعالمی برادری کو شامی حکومت کے خلاف عائد اقتصادی پابندیاں مزید سخت کرنی چاہئیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ اب تک امریکہ یہ مطالبہ کرتا آیا ہے کہ صدر بشارالاسد اقتدار چھوڑدیں لیکن اس کے لیے امریکہ نے کوئی عملی کوشش نہیں کی ہے۔ 'وال اسٹریٹ جرنل' کے مضمون نگار کے بقول امریکہ کی اس بے عملی سے دنیا میں اس کی طاقت اور اثر پذیری متاثر ہورہی ہے اور اگر امریکی حکومت نے اس کا سدِ باب نہ کیا تو اس کے تباہ کن نتائج برآمد ہوں گے۔

اخبار 'واشنگٹن پوسٹ' نے اپنے ایک اداریے میں روس میں منظور کیے جانے والے اس نئے قانون پر تنقید کی ہے جس کے ذریعے بغیر اجازت مظاہرے کرنے والوں پر جرمانے کی رقم میں بے تحاشا اضافہ کردیا گیا ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ روس میں گزشتہ برس ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں دھاندلی اور ولادی میر پیوٹن کے دوبارہ صدر بننے کی کوششوں کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاجی مظاہرے کیے گئے تھے۔

'واشنگٹن پوسٹ' کے مطابق اب جب کہ پیوٹن دوبارہ قصرِ صدارت میں براجمان ہوچکے ہیں انہوں نے روسی پارلیمان کے ذریعے، جو اخبار کے الفاظ میں ان کی مٹھی میں ہے، ایک ایسا قانون منظورکرایا ہے جس کے بعد ان کے مخالفین مظاہرے کے لیے سڑک پر آنے سے پہلے دس بار سوچیں گے۔

روسی پارلیمان کے دونوں ایوانوں سے منظور کیے جانے والے اس قانون کے تحت بغیر اجازت مظاہرے کرنے والے افراد پر نو ہزار ڈالر تک جرمانہ کیا جاسکے گا جب کہ ایسے مظاہروں کے منتظمین کو 30 ہزار ڈالرتک جرمانہ دینا ہوگا۔

اخبار لکھتا ہے کہ مذکورہ قانون ظالمانہ نوعیت کا ہے جس کا مقصد روس کی سول سوسائٹی سے تعلق رکھنے والے پرجوش مظاہرین کو دوبارہ احتجاج سے باز رکھناہے۔

'واشنگٹن پوسٹ' کے مطابق قانون کی زبان انتہائی مبہم ہے جس کے باعث پولیس باآسانی اس کا غلط استعمال کرسکتی ہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ یہ قانون روس کے آئین سے بھی متصادم ہے جس میں واضح الفاظ میں عوام کے حقِ اجتماع کا تحفظ کیا گیا ہے۔

'واشنگٹن پوسٹ' لکھتا ہے کہ روس میں حال ہی میں ہونے والے کچھ مظاہروں میں شرکا نے اپنے ہاتھوں میں جو کتبے اٹھا رکھے تھے ان پر "پیوٹن سے پاک روس" کے نعرے درج تھے۔

اخبار کے الفاظ میں ان نعروں سےخائف ہوکر صدر پیوٹن اب روس کو مظاہرین ہی سے پاک کرنے کا عزم کرچکے ہیں۔

امریکہ کے کئی علاقوں پر ان دنوں مچھروں نے یلغار کر رکھی ہے جن سے عاجز آکر اخبار 'نیو یارک ٹائمز' نے ایک اداریہ شائع کیا ہے۔

اخبار لکھتا ہے کہ امریکیوں پر ان دنوں مچھروں کے غول کے غول اس طرح منڈلا رہے ہیں جیسے 'اسٹار وارز' فلموں میں 'ایکس ونگ فائٹرز' بدقسمت 'ڈیتھ اسٹار' پر ٹوٹ پڑتے تھے۔

اخبار لکھتا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث امریکہ میں گزشتہ موسمِ سرما میں معمول سے کہیں کم سردی پڑی تھی۔ نسبتاً گرم موسم کے باعث مچھروں کو قبل از وقت ہی اپنی افزائش کے لیے مناسب ماحول میسر آگیا تھا جس کا نتیجہ امریکی شہری آج کل بھگت رہے ہیں۔

'نیو یارک ٹائمز' لکھتا ہے کہ متعلقہ حکام کو مچھروں کی اس یلغار کے باعث وبائی امراض کے پھیلنے کا خدشہ ہے اور اسی لیے حکام نے صورتِ حال پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے۔

اخبار نے عوام کو مشورہ دیا ہے کہ وہ گھر کے نزدیک پانی کھڑا نہ ہونے دیں اور تالاب اور پرندوں کو پانی پلانے کے لیے رکھے گئے برتن خالی کردیں تاکہ حملہ آور مچھروں کی فوج کو ان کے گھروں میں ہی شکست دیدی جائے۔

آڈیو رپورٹ سنیئے: