امریکہ میں آئندہ سال ہونے والے صدارتی انتخابات کے لیے ڈیموکریٹ پارٹی امیدواروں کے درمیان پارٹی کی نامزدگی جیتنے کے لیے مباحثوں کا سلسلہ جاری ہے۔
اب تک 2020ء کے صدارتی انتخاب کے لیے پارٹی کے ٹکٹ کے 25 امیدوار میدان میں آ چکے ہیں۔ منتخب امیدوار کا مقابلہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ہو گا جو دوسری مدت کے لیے صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان کر چکے ہیں۔
امریکہ کے نشریاتی ادارے 'سی این این' کے اشتراک سے ریاست مشی گن میں منگل کو ہونے والے صدارتی مباحثے میں ڈیموکریٹ پارٹی کی جانب سے صدارتی الیکشن لڑنے کے خواہش مند 10 امیدواروں نے حصہ لیا۔
صحتِ عامہ سے متعلق مجوزہ پالیسیوں پر تنقید
مباحثے کے دوران سینیٹر الزبتھ وارن اور برنی سینڈرز نے کہا کہ امریکہ کو ترقی پسند سوچ اور بڑے فیصلوں کی اشد ضرورت ہے۔
دونوں سینیٹرز کا کہنا تھا کہ انہیں موقع ملا تو وہ امریکہ کا صحتِ عامہ کا نظام نجی شعبے سے واپس لے کر حکومتی تحویل میں لیں گے۔
سینیٹر وارن اور سینڈرز کی صحتِ عامہ کے علاوہ امیگریشن پالیسیز میں تبدیلیوں کی تجاویز کو بھی مباحثے میں شریک دیگر آٹھ امیدواروں نے یکسر مسترد کر دیا۔
تمام امیدواروں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ 2020 کے صدارتی الیکشن میں صدر ٹرمپ کو شکست دینے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ تین گھنٹے سے زائد جاری رہنے والے مباحثے میں مختلف پالیسیز پر کئی اہم نکات اٹھائے گئے۔
'ناقابلِ عمل سوچ پارٹی کا ووٹ بینک کم کر سکتی ہے'
ماہرین کے مطابق ڈیموکریٹک امیدواروں کے درمیان مباحثوں کے بعد یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے کہ دو درجن سے زائد امیدواروں کے مابین اختلافات کی خلیج بہت وسیع ہے۔
اپنی پروگریسو سوچ اور نظامِ حکومت میں بڑی تبدیلیوں کے خواہاں سینیٹر ایلزبتھ وارن اور برنی سینڈرز جیسے امیدواروں کے منصوبوں کو دیگر امیدوار ناقابلِ عمل قرار دے رہے ہیں۔
معتدل سوچ رکھنے والوں میں مونتانا کے گورنر اسٹیو بولک بھی شامل ہیں جنہوں نے منگل کو مباحثے کے دوران کہا کہ غیر حقیقت پسندانہ سوچ کے باعث ڈیموکریٹ پارٹی اپنے ووٹرز کا اعتماد کھو سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پچھلے مباحثوں میں دیکھا گیا ہے کہ امیدواروں کی زیادہ تر توجہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے پوائنٹ اسکورنگ پر مرکوز رہی۔
"ایسے وعدے کیے جا رہے ہیں جنہیں پورا کرنا مشکل ہے۔ ہماری کوشش یہ ہونی چاہیے کہ ہم امریکی عوام کو یہ باور کرا سکیں۔ ہم ان کی زندگی میں کیا مثبت تبدیلیاں لا سکتے ہیں۔"
دوسری جانب پروگریسو سوچ کے حامل امیدواروں کا کہنا ہے کہ نئے خیالات اور سوچ ووٹرز کو متوجہ کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ ووٹرز کو یہ بتانا ضروری ہے کہ ہم ان کی فلاح و بہبود کے لیے وہ کچھ سوچ رہے ہیں جو صدر ٹرمپ نے اپنے دورِ صدارت میں نہیں کیا۔
مباحثے کے دوران سینیٹر الزبتھ وارن اور برنی سینڈرز نے کہا کہ ہم پہلے ہی اتنے مایوس کیوں ہو رہے ہیں کہ ہم یہ نہیں کر سکتے۔
سینڈرز نے کہا کہ "لگتا ہے ڈیموکریٹس امیدوار بڑا سوچنے سے ڈرتے ہیں۔ لیکن اس کے برخلاف ری پبلکن بڑا سوچتے ہیں۔"
'ڈیمو کریٹس بنیاد پرست سوچ رکھتے ہیں'
ڈیمو کریٹس امیدواروں کے مباحثوں اور موقف کو صدر ٹرمپ شدید تنقید کا نشانہ بناتے رہے ہیں۔
صدر ٹرمپ یہ کہتے آئے ہیں کہ ڈیمو کریٹس عوام پر ٹیکسوں کا مزید بوجھ لادنا چاہتے ہیں۔ یہ سرحد کھول کر غیر قانونی تارکینِ وطن کو کھلی چھوٹ دینے کے علاوہ صحت کے شعبے کو سرکاری تحویل میں لینا چاہتے ہیں۔
منگل کو ہونے والے مباحثے پر تبصرہ کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کی انتخابی مہم کی انچارج نے کہا کہ بنیاد پرست سوچ رکھنے والوں نے سوشلسٹ نظریات کا اظہار کیا ہے۔
مباحثے کے دوران سینیٹر الزبتھ وارن کا کہنا تھا کہ وہ ایسا نظامِ صحت متعارف کرانا چاہتی ہیں جس سے امریکہ میں مقیم ہر شخص کو صحت کی سہولیات مل سکیں۔
سینیٹر الزبتھ وارن اس ضمن میں 'میڈی کیئر فار آل' کے نام سے ایک بل بھی سینیٹ میں پیش کر چکی ہیں۔
دورانِ مباحثہ ان پر یہ تنقید ہوئی کہ وہ ایسا نظام کیوں متعارف کرانا چاہتی ہیں جس سے عوام کو یہ تاثر ملے کہ ان سے کوئی سہولت واپس لی جا رہی ہے۔
الزبتھ وارن نے کہا کہ ہم عوام سے کوئی سہولت واپس نہیں لے رہے بلکہ ایک نئی پالیسی لا کر مزید لوگوں کو اس میں شامل کر رہے ہیں۔
ان کے بقول، "صحت انسانی حقوق کا معاملہ ہے جس کے لیے میں کام کرتی رہوں گی۔"
مباحثے کے دوران امیدواروں کے مابین امیگریشن پالیسیز خاص طور پر غیر قانونی تارکینِ وطن کی امریکہ آمد کے حوالے سے اختلافات بھی ابھر کر سامنے آئے۔
مباحثے میں بعض امیدوار امریکہ میں بڑھتی ہوئی نسل پرستی کا مسئلہ بھی زیرِ بحث لائے۔ لیکن، انہیں خاطر خواہ پذیرائی نہ مل سکی۔
مبصرین کے مطابق، اس مباحثے کے بعد ٹم رائن اور ریاست کولوراڈو کے سابق گورنر ہچکن لوپر کے اگلے مرحلے تک رسائی کے امکانات معدوم ہو گئے ہیں۔ دیگر آٹھ امیدواروں کی اگلے مباحثے تک رسائی ممکن ہے، جو ستمبر میں ہو گا۔
'سی این این' کے تحت ہونے والے مباحثے کا دوسرا دور بدھ کو ہو گا جس میں سابق نائب صدر جو بائیڈن اور کملا ہیرس بھی شریک ہوں گی۔
ڈیموکریٹس امیدواروں میں کون آگے ہے؟
حالیہ سروے کے مطابق، سابق نائب صدر جو بائیڈن ڈیموکریٹس امیدواروں کی دوڑ میں سب سے آگے ہیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے ایسے 12 مباحثوں کا اہتمام کیا گیا ہے جس میں صدارتی انتخاب لڑنے کے خواہش مند امیدوار خارجہ پالیسی، داخلی معاملات، اسقاط حمل قوانین، امیگریشن اور دیگر امور سے متعلق اپنا ایجنڈا عوام کے سامنے پیش کریں گے۔
ان مباحثوں کے بعد فروری 2020 میں ڈیموکریٹک پارٹی کی پرائمریز اور 'کاکس' ووٹنگ کے ذریعے حتمی امیدوار کا اعلان کیا جائے گا۔
سیاسی ماہرین کے مطابق، ڈیمو کریٹس ووٹرز ایسے امیدوار کے حق میں اپنا ووٹ دیں گے جو خارجہ پالیسی، صحت، امیگریشن اور ٹیکس اصلاحات کے معاملے پر ان کے جذبات کی ترجمانی کے علاوہ صدر ٹرمپ کو شکست دینے کی بھی اہلیت رکھتا ہو۔