امریکہ نے کہا ہے کہ وہ شمالی شام میں ترکی کی فوجی کارروائی پر اس کے خلاف انتہائی سخت پابندیاں عائد کرنے پر غور کر رہا ہے۔
امریکہ کے وزیر خزانہ اسٹیون منوشن کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ ایک انتظامی حکم نامے پر دستخط کرنے والے ہیں تاکہ ترکی کو شام میں مزید مہم جوئی سے روکا جا سکے۔
منوشن کے مطابق صدر ٹرمپ کو اس بات پر تشویش ہے کہ ترک فوج ممکنہ طور پر شہری آبادی، نسلی یا مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنا سکتی ہے۔
اسٹیون منوشن کا کہنا تھا کہ صدر ٹرمپ یہ واضح کر دینا چاہتے ہیں کہ ترکی کو داعش کے کسی ایک جنگجو کو بھی فرار ہونے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔
منوشن کے مطابق وزارتِ خزانہ محکمہ خارجہ اور محکمہ دفاع کے ساتھ مل کر صورتِ حال کا جائزہ لے رہا ہے۔ جس کے بعد صدر کو سفارش کی جائے گی کہ کس مرحلے پر پابندیاں عائد کرنا ضروری ہو گا۔
انہوں نے کہا کہ ہم مالیاتی اداروں کو تنبیہ کرتے ہیں کہ وہ محتاط رہیں کسی بھی وقت پابندیاں عائد ہو سکتی ہیں۔
وائس آف امریکہ کے اس سوال پر کہ امریکہ کو یہ اعتماد کیوں ہے کہ اس اعلان پر ترکی پیچھے ہٹ جائے گا؟ اس پر اسٹیون منوشن کا کہنا تھا کہ ہمیں یقین ہے کہ امریکہ کے تحفظات کے بعد ترک حکومت ذمہ داری کا مظاہرہ کرے گی۔
منوشن نے مزید کہا کہ یہ بہت سخت پابندیاں ہو سکتی ہیں۔ لیکن ہم توقع کرتے ہیں اس کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ لیکن اگر ہم چاہیں تو ترکی کی معیشت کو ٹھپ کر سکتے ہیں۔
ادھر کرد جنگجوؤں نے کہا ہے کہ ترکی کی اس مہم جوئی کے بعد داعش کو سر اٹھانے کا موقع مل رہا ہے۔ ترکی کی کارروائی کے بعد دولت اسلامیہ(داعش) نے کرد جنگجوؤں کے زیر اثر علاقے میں کار بم حملے کا دعویٰ کیا ہے۔
کردوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے سے داعش کے پانچ جنگجو فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ پر اپوزیشن کی تنقید
ڈیموکریٹ اراکین کانگریس کی جانب سے ٹرمپ انتظامیہ پر یہ تنقید کی جا رہی ہے کہ انہوں نے ترکی کو شمالی شام میں کارروائی کے لیے گرین سگنل دیا۔ جب کہ یہ اعتراض بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ امریکہ نے شام میں اپنے اتحادی کرد جنگجوؤں کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔
امریکہ کے وزیر خارجہ مارک ایسپر نے اس تاثر کی نفی کرتے ہوئے کہا ہے کہ "ہم نے ترکی کو کوئی گرین سگنل نہیں دیا بلکہ ہم واشگاف الفاظ میں ترکی پر واضح کرتے ہیں کہ امریکہ ترکی کے ان اقدامات کی حمایت نہیں کرتا۔"
امریکہ نے ترکی پر یہ بھی واضح کیا ہے کہ اس کی فوجی کارروائی کے دوران شام میں امریکی تنصیبات کو کوئی نقصان نہیں پہنچنا چاہیے۔ ترکی کے فوجی حکام کا کہنا ہے کہ ان کی یہ کارروائی منظم انداز اور مخصوص اہداف کے حصول کے تحت جاری ہے۔
ترکی کی فوجی کارروائی جاری
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان نے امریکی تحفظات کے باوجود واضح کیا ہے کہ ترکی کارروائی نہیں روکے گا چاہے کوئی جو مرضی کہتا رہا۔
خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق وار مانیٹر کے ادارے نے اب تک اس کارروائی میں سو افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ جنگ کے باعث اب تک ایک لاکھ افراد شمالی شام سے نقل مکانی کر چکے ہیں۔
ترک حکام نے دعویٰ کیا ہے کہ جمعے کو کی گئی کارروائی میں وائی پی جی ملیشیا کے 399 جنگجوؤں کا ہلاک کیا گیا ہے۔ ترکی کی فوجی کارروائی کا مرکز شمالی شام میں راس العین کا علاقہ ہے۔ جمعے کو ترکی کی فضائیہ نے اس علاقے میں بمباری کی اور وائی پی جی ملیشیا کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا۔ یہ بھی بتایا جا رہا ہے کہ ترکی نے اس علاقے میں نو دیہات پر قبضہ کر لیا ہے۔
خیال رہے کہ شمالی شام کا یہ علاقہ وائی پی جے اور سیرئین ڈیموکریٹک فورس(ایس ڈی ایف) کے زیر کنٹرول ہے۔ اس قبل اس علاقے پر دولت اسلامیہ(داعش) کا کنٹرول تھا۔ وائی پی جی اور ایس ڈی ایف نے امریکی فوج کے ساتھ مل کر ان علاقوں سے داعش کا صفایا کیا تھا۔ اس علاقے کی جیلوں میں دولت اسلامیہ کے ہزاروں جنگجو قید ہیں۔ جب کہ ان داعش کے جنگجوؤں کے اہل خانہ کو مختلف کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔ امریکہ کو یہ بھی خدشہ ہے کہ ترکی کی اس کارروائی کے دوران داعش کے یہ لوگ جیلوں سے فرار ہو سکتے ہیں۔
ایران کی ثالثی کی پیش کش
ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے کہا ہے کہ وہ تنازع کے حل کے لیے فریقین کے مابین ثالثی کے لیے تیار ہے۔
جواد ظریف کا کہنا تھا کہ وہ ترکی، شامی حکومت اور کردوں کے مابین شمالی شام میں قیام امن کے لیے بات چیت کا اہتمام کر سکتا ہے۔ ایرانی وزیر خارجہ نے 21 سال قبل طے پانے والے سیکورٹی معاہدے کا حوالہ بھی دیا۔ جس کے تحت دمشق اس بات کا پابند ہے کہ وہ ترکی مخالف کردستان ورکرز پارٹی(پی کے کے) کو ترکی کے خلاف استعمال نہیں ہونے دے گا۔ ترکی کے مطابق شام نے کبھی اس معاہدے پر عمل نہیں کیا۔
ترکی یہ کارروائی کیوں کر رہا ہے؟
خیال رہے کہ چند روز قبل ترکی نے شمالی شام میں فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھا۔ ترکی شمالی شام میں وائی پی جی ملیشیا کے خلاف فوج کارروائی کر کے یہاں ایک محفوظ زون بنانا چاہتا ہے۔ ترکی وائی پی جے ملیشیا کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے جو اس کے بقول ترکی میں کردستان تحریک کی حمایت کرتی ہے۔
ترکی کی یہ بھی خواہش ہے کہ شمالی شام میں ایک محفوظ زون قائم کیا جائے۔ ترکی یہاں لاکھوں شامی مہاجرین کو آباد کرنا چاہتا ہے جو شام میں گزشتہ آٹھ سال سے جاری جنگ کے بعد ترکی پہنچے تھے۔
صدر ٹرمپ نے شمالی شام سے امریکی فوج کے انخلاء کا حکم دیا تھا جس کے بعد ترکی نے فوجی کارروائی کا آغاز کیا۔ تاہم صدر ٹرمپ نے یہ واضح کیا تھا کہ اگر ترکی نے تجاوز کی کوشش کی تو اس کی معیشت کو تباہ کر دیا جائے گا۔