کرونا وائرس کے باعث امریکہ میں سیاسی سرگرمیاں ماند پڑگئیں

  • مدثرہ منظر

Trump, Biden

امریکہ میں یہ سال صدارتی انتخابات کا سال ہے اور اگرچہ کرونا وائرس کی وبا نے انتخابی سرگرمیاں روک دی ہیں، مگر امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتیں، ڈیموکریٹک پارٹی اور ریپبلکن پارٹی اپنے اپنے طور پر اپنی انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔

حال ہی میں امریکہ کے سابق صدر براک اوباما نے اپنی پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن کی باضابطہ حمایت کا اعلان کیا ہے۔ ان کے اس وڈیو پیغام نے میڈیا اور عام لوگوں کی سوچ میں ایک ارتعاش پیدا کر دیا ہے۔

Your browser doesn’t support HTML5

کرونا وائرس: امریکہ میں انتخابی سرگرمیاں

اس اعلان سے اوباما کی مقبولیت ایک مرتبہ پھر ابھر کر سامنے آئی ہے اور جو بائیڈن خود کو بہت مضبوط سمجھنے لگے ہیں۔ وہ صدر ٹرمپ کو کتنا بڑا چیلنج دے سکتے ہیں اس بارے میں وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے شکاگو میں 18 سال سے ریپبلکن پارٹی کی پریسنکٹ کمیٹی کے منتخب رکن اور 2020 کیلئے صدر ٹرمپ کی ایڈوائزری کمیٹی کے رکن، پولیس کمشنر طلعت رشید نے کہا ہے کہ "شروع میں تو جو بائیڈن بالکل زیرو تھے۔ ان کو رائٹ آف کر دیا گیا تھا۔ مگر بعد میں انہوں نے کچھ ریاستوں میں خود کو مضبوط کیا۔ لیکن، ان کی تاریخ دیکھیں تو جب ہیلری کلنٹن امیدوار تھیں تو انہیں الیکشن لڑنے سے روک دیا گیا تھا۔"

Talat Rasheed Republican

طلعت رشید نے مزید کہا کہ "بائیڈن پبلک کو اتنا اپیل نہیں کرتے۔ اب یہ جو ان کو حمایت ملی ہے یہ خود بخود نہیں ملی۔ اوباما نے آخری وقت میں جا کر ان کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے پاس اتنی طاقت نہیں ہے۔ وہ بھول بھی جاتے ہیں۔ عمر بھی ہوگئی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ ٹرمپ کو ان سے کوئی خطرہ ہے۔ سوائے اس کے کہ وہ نائب صدر کیلئے کسی خاتون کا انتخاب کر لیں۔"

دوسری جانب، نیویارک میں ڈیموکریٹک نیشنل کمیٹیز اور ایتھنک کوآرڈینیٹنگ کمیٹی کے سربراہ اور ڈیموکریٹک پارٹی کیلئے سرگرم، ملک ندیم عابد نے کہا ہے کہ ''صدر اوباما کی انتہائی ابتدائی سطح پر مقبولیت بہت زیادہ ہے اور اس کا فائدہ جو بائیڈن کو ہو گا۔ اور اس کے نتیجے میں صدر ٹرمپ نے جس الجھن کا اظہار کیا ہے، پہلی کامیابی تو یہی ہے۔ صدر ٹرمپ نے کانگریس کو نظر انداز کر کے ازخود تقرریاں کرنے کا اعلان اسی دباؤ کی وجہ سے کیا۔"

سابق صدر اوباما نے جو بائیڈن کی حمایت کا اعلان کرنے میں کافی وقت لیا، جس بات پر ملک ندیم عابد نے کہا کہ ''اسکی وجہ یہ ہے کہ برنی سینڈرز نے الیکشن سے دستبردار ہونے کا اعلان کرنے میں بہت وقت لیا۔ اگر اوباما اس سے پہلے ان کی توثیق کرتے تو یہ ڈیموکریٹک پارٹی میں دراڑ کا باعث بنتا۔ اب اس وقت یہ اعلان کرنا پارٹی اور عام لوگوں کیلئے مثبت علامت ہے۔"

Malik Nadeem Abid

کرونا وائرس کی وبا کو روکنے کے صدر ٹرمپ کے اقدامات پر بہت نکتہ چینی ہوئی ہے۔ اس کا ان کی انتخابی مہم پر کیا اثر پڑے گا، اس بارے میں طلعت رشید کہتے ہیں کہ "میڈیا ٹرمپ کے خلاف ہے۔ وہ جو بھی کام کریں میڈیا اس کے خلاف جاتا ہے۔ ٹرمپ نے کرونا وائرس کو پھیلنے سے روکنے کیلئے چین سے پروازیں بند کیں تو مخالفت کی گئی۔ اب ٹرمپ معیشت کھولنا چاہتے ہیں تو بھی پہلے سب گورنر اس کے خلاف تھے مگر اب نیویارک کے گورنر کومو بھی، جو کہ ڈیمو کریٹ ہیں، اس کی مخالفت نہیں کر رہے۔ مشی گن میں گذشتہ روز اس کے حق میں مظاہرہ بھی ہوا۔ اب کچھ گورنر اکانومی کو کھولنا چاہتے ہیں اور انہوں نے ٹرمپ کے اس اقدام سے اتفاق کیا ہے۔"

اس معاملے پر کہ کرونا وائرس کی وبا نے انتخابی ریلیاں روک دی ہیں، ملک ندیم عابد نے کہا ہے کہ اس سے بہت فرق پڑا ہے اور یہ صورتِ حال جلد ختم ہوتی نظر نہیں آتی۔ بقول ان کے، ''آئندہ انتخابی مہم میڈیا پر چلے گی اور اس کا فی الحال فائدہ صدر ٹرمپ کو ہو رہا ہے جنہیں میڈیا بریفنگ کے ذریعے بہت وقت مل رہا ہے''۔

تاہم، ملک ندیم عابد کہتے ہیں کہ ڈیموکریٹس کو کچھ اور بھی کرنا ہوگا۔ انہیں ان ریاستوں میں اپنی مہم چلانا ہوگی جنہیں گزشتہ الیکشن میں نظر انداز کیا گیا اور جہاں ٹرمپ کو کامیابی ملی۔

امریکہ کے سابق صدر اوباما کی جانب سے بائیڈن کی حمایت کے پیغام کی وڈیو نے امریکی سیاست کے سکوت میں ہلچل مچا دی ہے۔ میڈیا میں اس پر تبصرے جاری ہیں آج ہی شکاگو ٹریبون میں جان کیس نے تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ اوباما نے بائیڈن کی حمایت کرتے ہوئے "گریٹ اویکننگ" یا عظیم بیداری کے الفاظ استعمال کئے اور یہ میڈیا کی شہ سرخیاں بن گئیں۔

سابق صدر اوباما نے کہا ہے کہ ''ہم چاہتے ہیں کہ خیر سگالی کا جذبہ رکھنے والے عظیم بیداری میں متحد ہو کر اس سیاست کے خلاف کھڑے ہو جائیں جو اکثر بدعنوانی، لاپرواہی، خود نمائی، غلط بیانی، جہالت اور مطلب براری کا شکار رہتی ہے۔‘‘

جان کیس کہتے ہیں کہ اوباما نے عظیم بیداری یا گریٹ اویکننگ کے الفاظ سوچ سمجھ کر استعمال کیے، کیونکہ انہیں الفاظ کے چناؤ میں ملکہ حاصل ہے۔ ان کے مطابق یہ اشارہ 1830 کے عشرے میں امریکی نو آبادیوں میں چلنے والی اس تحریک کی جانب ہے جس کا مقصد مسیحیت کا فروغ تھا، سیاست کا نہیں اور جو بائیڈن کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔ دوسرے معنوں میں اوباما کی مراد یہ بھی ہو سکتی ہے کہ سیاست نیا مذہب، حکومت نیا چرچ اور نوازے صرف وہ جائیں گے جو پختہ عقیدہ رکھتے ہیں۔