مجوزہ نئی افغان حکمتِ عملی، طالبان کے خلاف فیصلہ کُن معرکہ

فائل

’واشنگٹن پوسٹ‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ 25 مئی کو برسلز میں نیٹو کے سربراہ اجلاس میں شرکت سے قبل، صدر ٹرمپ اِس حکمت عملی کو حتمی شکل دیں گے

صدر ڈونالڈ ٹرمپ افغانستان سے متعلق نئی حکمت عملی وضع کر رہے ہیں، جس کے نتیجے میں، بتایا جاتا ہے کہ امریکہ طالبان کے خلاف مؤثر معرکہ آرائی پر گامزن ہوگا۔


حکمت عملی کی اِس اہم مجوزہ تبدیلی کے بارے میں، روزنامہ ’واشنگٹن پوسٹ‘ نے منگل کو ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس میں بتایا گیا ہے کہ ٹرمپ کے اعلیٰ ترین فوجی اور خارجہ امور کے مشیروں نے غور و خوض کے بعد یہ تبدیلیاں تجویز کی ہیں۔


رپورٹ کے مطابق، 25 مئی کو برسلز میں نیٹو کے سربراہ اجلاس میں شرکت سے قبل، صدر ٹرمپ اِس حکمت عملی کو حتمی شکل دیں گے۔


مجوزہ منصوبے کے تحت، افغانستان میں موجود تقریباً 8400 امریکی فوج میں کم از کم 3000 کا اضافہ کیا جائے گا۔ اس کے علاوہ نیٹو ممالک متوقع طور پر اِسی تناسب سے فوجی تعینات کریں گے۔

اہل کاروں نے بتایا ہے کہ ابھی یہ واضح نہیں آیا ٹرمپ، جنھوں نے ابھی تک امریکہ کی اس طویل ترین لڑائی کے بارے میں کم ہی بات کی ہے، افغانستان میں امریکہ کے کردار کو وسعت دینے کی حمایت کریں گے۔

اب تک وہ بیرون ملک تنازعات میں امریکی فوج کو جھونکنے کی اجازت دینے کے بارے میں شبہات کا اظہار کرتے آئے ہیں۔ تاہم، صدر نے دہشت گردوں سے نبردآزما ہونے کے حوالے سے ٹھوس انداز اختیار کرنے کے لیے کہا ہے۔


’یو ایس انسٹی ٹیوٹ آف پیس‘ میں افغانستان امور کے ماہر، اینڈریو وائلڈر نے کہا ہے کہ ’’مزید فوجی ضرور بھیجے جائیں۔ لیکن، اس سے دائمی فوجی کامیابی کی امید نہیں۔ بلکہ، اس سے اس تنازع کا مذاکرات کے ذریعے حل تلاش کرنے میں مدد مل سکتی ہے‘‘۔


رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس مجوزہ حکمت عملی سے قبل امریکی فوج کو طالبان کے ساتھ تعطل کے معاملے پر پریشانی لاحق رہی ہے، جب کہ یکجہتی پر مبنی حکومت کے مشکل صورت حال کا سامنا ہے، جب کہ جنوبی ایشیا کے خطے میں القاعدہ اور داعش سمیت شدت پسند گروپوں سے نمٹنے کے لیے استعمال کیے جانے والے اہم امریکی اڈے کو خطرات درپیش ہیں۔