امریکہ پاکستانی عوام اور حکومت کے ساتھ دیرپا دوستی کے وعدے سے وابستہ ہے: کانگریس وومن شیلا جیکسن لی

کانگریس وومن شیلا جیکسن لی

امریکی کانگریس وومن شیلا جیکسن لی پاکستان اور پاکستانیوں سے خصوصی تعلق اور ان کے لیے نرم گوشہ رکھنے کے حوالے پہچانی جاتی ہیں۔ وہ سرکاری ِاجلاسوں میں پاکستان اور مسلمانوں کے لیے آواز اٹھاتی رہتی ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے پاکستان کے اپنے دورے میں صدر اور اعلیٰ ملکی قیادت سے ملاقاتیں کی ہیں۔ وی او اے نے ان سے پاکستان کے دورے، ٹائمز سکوئر میں ناکام بم دھماکے کی کوشش کے بعد پاکستانیوں کے خدشات ،اور دوسرے معاملات پر انٹرویو کیا۔

شیلا جیکسن سے پہلا سوال تھا کہ اٹارنی جنرل کے ساتھ کانگریشنل سماعت میں آپ نے نسلی تعصب کی بھر پور مخالفت کی۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جو کہ صرف امریکہ ہی میں لوگوں پر اثرانداز نہیں ہو رہا بلکہ وہ غیر ملکی جو اس ملک کا سفر کرنا چاہتے ہیں، وہ بھی اس سے شدید خائف ہیں۔ آپ اس سلسلے میں کیا کہنا چاہتی ہیں؟

جیکسن لی کا کہناتھاکہ ہم ایک مختلف دنیا میں رہ رہے ہیں ۔ پاکستان ، امریکہ، یورپ، افریقہ، سب کے لیے یہ ایک نیا دور ہے۔ یقنناً امریکہ میں ایسے لوگ اور گروپ موجود ہیں جو معصوم لوگوں کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے کہ دنیا کے کئی ممالک طویل عرصے سے دہشت گردی کا سامنا کررہے ہیں۔

11 ستمبر2001ء کے حملوں نے امریکی عوام کے لیے اپنے وطن کی حفاظت کے لیے نئے طریقے تلاش کرنےکی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ ہمارا ملک انسانی حقوق اور شہری آزادیوں کے احترام کے لیے بھی شہرت رکھتاہے۔ اور مجھے بحیثیت ہوم لینڈ سیکیورٹی کمیٹی اور جیوڈیشیری کمیٹی کے رکن کے، اس بات کا یقین ہے کہ اپنے وطن کی حفاظت اور شہری آزادیوں کا تحفظ ایک ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ ہمارے دوستوں، اتحادیوں حتی کہ ہمارے دشمنوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم دھشت گردی سے ڈرنے والے نہیں۔ ہم ہرگز ایسے قوانین اور ضابطے نہیں بنائیں گے جس سے لوگوں کو انکی رنگت اور قومیت کی بنیاد پر امتیاز برتا جاسکے۔ اسی لیے میں نے ایسے چبھتے ہوئے سوال کیے۔ میرا خیال ہے کہ انتظامیہ اور اٹارنی جنرل پر بالکل واضح ہے کہ نسلی تعصب یا ریشیل پروفائلنگ قابل قبول نہیں ہے۔

شیلا جیکسن سے وی او اے کا اگلا سوال پاکستان کے حوالے سے تھا ۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ حال ہی میں پاکستان کے دورے سے واپس آئی ہیں جہاں آپ نے اسٹیبلیشمنٹ ، فوجی جرنیلوں، اور صدر زرداری سے بھی ملاقاتیں کیں۔ آپ کے خیال میں وہاں شدت پسندی کے خلاف جنگ میں ویسے ہی جذبات اب بھی ہیں جیسے ہونا چاہیئیں؟ پھر امریکی انتظامیہ کی جانب سے مزید کچھ کرنے کا مطالبہ، خصوصا نیویارک کے ناکام بم دھماکے کے بعد وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کا یہ بیان کہ آئندہ کسی حملے کی صورت میں پاکستان کو سنگین نتائج بھکتنا ہوں گے۔ کیا آپ کو امریکہ اور پاکستان کی سوچ میں اس معاملے پر کوئی تضاد دکھائی دیا، کیا آپ کو پاکستان کی کمٹمنٹ پر پورا یقین ہے؟

شیلا جیکسن کا کہناتھا کہ میں جانتی ہوں کہ امریکی حکومت پاکستان کے عوام اور پاکستانی حکومت کے ساتھ دیرپا دوستی کے عہد پر پوری طرح قائم ہے۔ لیکن بعض اوقات حکومتوں کو آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ واضح طور پر کھل کرسیدھی سیدھی بات کرنا ہوتی ہے۔ اور جب کسی ملک کو نقصان ہور ہا ہو تو سیدھی اور صاف بات کرنا ہی اہم ہوتا ہے۔ میرے پاکستان کے دورے میں، صدر، وزیر اعظم، اور دیگر حکام سے ملاقاتوں کے بعد میں سمجھتی ہوں کہ پاکستان میں اس معاملے پر صاف گوئی اور کھلے پن کی اہمیت کا احساس موجود ہے۔ اور یہ کہ پاکستانی فوج اور دوسرے لوگ جو دہشت گردی سے نمٹ رہے ہیں، پاکستانی عوام کے لیے یہ بات انتہائی اہم ہے کہ دہشت گردوں کو انصاف کے کٹہرےمیں لایا جائے۔ اور یہ کہ اس کے لیے ایک عالمی کوشش ہونا چاہیے۔ اس تنقید سے کچھ اور مراد نہیں ہے۔

لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ نیو یارک کے ناکام بم دھماکے میں مبینہ طور پر ملوث شخص کا تعلق پاکستان اور طالبان سے نکلا ہے۔ یقینا ہم جاننا چاہتے ہیں کہ حکومت اس معاملے سے کتنی قوت سےنمٹنا چاہتی ہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ اس معاملے پر کئی مختلف آرا موجود ہیں اور کلچر کے بھی کئی فرق ہیں جن سے پاکستانی حکومت کو نمٹنا ہے ۔ لیکن یہ بھی بہت اہم ہے کہ دوستوں کو اس بات کی اجازت ہونی چاہیئے کہ وہ ایک دوسرے سے کھل کر بات کرسکیں۔ میرے خیال میں اس سے دوستی پر کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے۔

ان سے ایک اور سوال تھا کہ آپ پاکستان اور پاکستانی امریکن کمیونٹی کی امریکی کانگریس میں ایک اہم اور بلند آواز ہیں۔ اس کے علاوہ آپ مختلف اجلاسوں میں پورے ملک میں کمیونٹی کے لیے آواز ا ٹھائی ہے۔ نیو یارک کی اس ناکام کوشش کے بعد آپ نےکس طرح سے کمیونٹی کی مدد کرنے کی کوشش کی، کیونکہ اس واقعہ کے بعد لوگوں میں کافی بے چینی اور اضطراب پایا جاتا ہے۔

ان کا کہناتھا کہ میری ایک کوشش کے نتیجےمیں کانگریس نے اٹارنی جنرل سے اس معاملے پر پوچھ گچھ تھی۔ اور آئندہ دنوں میں ہم واشنگٹن اور اس سے باہر کئی اجلاس منعقد کریں گے۔ میرا آفس کھلا ہے، میں خود ایک کھلی کتاب ہوں، میرے دروازے کھلے ہیں۔ اور میں کمیونٹی کے لیے حاضر ہوں۔ لیکن یہ بہت اہم ہے کہ ہم کانگریس میں اس معاملے پر اپنا کام جاری رکھیں۔ اور یہ بھی اہم ہے کہ ہم پاکستانی امریکن کمیونٹی کو یہ باور کرائیں کہ ہم کانگریس میں ان سے ہمدردی رکھتے ہیں اور ہمیں انکی فکر ہے۔ اور جب ہم متعلقہ لیڈر شپ سے ملیں تو انکے مسائل کو وہاں اٹھائیں خصو صاً ریشیل پرو فائلنگ، جس کی اکثر لوگ شکایت کرتے ہیں۔

اس موقع پر میں پاکستانی امریکن کمیونٹی کی اس بات پر بھی حوصلہ افزائی کرونگی کہ اس وقت کو استعما ل کرتے ہوئے انہیں پورے ملک میں اس معاملے پر ٹاؤن ہال میٹنگز اور کانفرنسز کرنا چاہیئں تاکہ وہ جہاں بھی رہتے ہوں، وہ اپنے پڑوسیوں کو بتائیں کہ وہ کون ہیں اور ان کا انصاف اور جمہوریت سے کتنا گہرا لگاؤ ہے۔ ا ور یہ کہ ہم ایک مختلف دنیا میں رہتے ہیں لیکن ہم اب بھی اپنے شہری حقوق اور شہری آزادیوں کو ضروری سمجھتے ہیں۔ پاکستانی کمیونٹی ایک اہم اور مؤثر کمیونٹی ہے۔

ہم نے پاکستانی امیریکن فاؤنڈیشن بنائی ہے جو پاکستانی عوام کے لیے وسائل مہیا کرے گی۔ یہاں بہت سے ایسےپیغامات ہیں پاکستانی امریکن کمیونٹی کے بارے میں جو لوگوں کو سمجھائے جا سکتے ہیں۔ پاکستانی کمیونٹی اس ملک کی ترقی میں ایک بہت اہم کردار ادا کررہی ہے۔ لہذا میر ا پیغام بھی یہی ہے کہ آپ اس عمل میں شامل ہوں ۔ اور ہم امریکی کانگریس میں آپ کے لیے کام کرتے رہیں گے۔