جمیز ڈوبنز کی پاکستانی عہدیداروں سے ملاقاتیں

(فائل فوٹو)

وزارتِ خارجہ کے بیان کے مطابق سرتاج عزیز نے ڈرون حملوں سے متعلق پاکستان کے تحفظات کا اظہار کیا اور امریکی حکمتِ عملی پر نظرِ ثانی کرنے کا مطالبہ بھی دہرایا۔
امریکہ اور پاکستان نے افغانستان میں امن و مصالحت کے عمل پر پیش رفت کی اہمیت پر زور دیا ہے۔

افغانستان اور پاکستان کے لیے امریکہ کے نمائندہ خصوصی جیمز ڈوبنز نے پاکستانی وزیرِ اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی و اُمور خارجہ سرتاج عزیز سے منگل کو اسلام آباد میں ملاقات کی، جس میں امریکی سفیر ریچرڈ اولسن اور پاکستانی سیکرٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی بھی شریک تھے۔

وزارتِ خارجہ کے جاری کردہ بیان میں کہا گیا کہ اعلیٰ سفارتی عہدیداروں نے دوطرفہ تعلقات کے علاوہ سلامتی سے متعلق علاقائی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔

’’(بات چیت میں) افغانستان کے تناظر میں امن و مصالحت سے متعلق پیش رفت، 2014ء اور اس کے بعد کے معاملات زیرِ بحث آئے۔‘‘

امریکی اور دیگر بین الاقوامی افواج نے 2014ء کے اختتام تک افغانستان سے انخلاء کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔

بیان کے مطابق سرتاج عزیز نے ڈرون حملوں سے متعلق پاکستان کے تحفظات کا اظہار کیا اور امریکی حکمتِ عملی پر نظرِ ثانی کرنے کا مطالبہ بھی دہرایا۔

جیمز ڈوبنز نے وفاقی وزیرِ داخلہ چودھری نثار علی خان سے بھی ملاقات کی۔

امریکی نمائندہ خصوصی نے یہ دورہ ایسے وقت کیا ہے جب پاکستانی سر زمین پر مشتبہ شدت پسندوں کے خلاف مبینہ امریکی ڈرون حملوں کے تناظر میں مختلف سیاسی جماعتوں بشمول حکمران مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے تسلسل سے تنقیدی بیانات دیے ہیں۔

تنقید کے اس سلسلے کی بنیاد یکم نومبر کو قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ہوا وہ ڈرون حملہ بنی جس میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کا سربراہ حکیم اللہ محسود ہلاک ہو گیا تھا، جس کے بعد حکومت اور اس کالعدم تنظیم کے درمیان مجوزہ امن مذاکرات کے امکانات بھی معدوم ہو گئے۔

نومبر ہی کے وسط میں صوبہ خیبر پختونخواہ کی حدود میں ہوئے پہلے ڈرون حملے کے بعد صوبائی سطح پر حکمران جماعت تحریک انصاف نے امریکی و نیٹو افواج کے لیے رسد کی افغانستان ترسیل میں احتجاجاً رکاوٹ ڈالنے کا اعلان کیا اور اس کے کارکن گزشتہ 10 روز سے اس نوعیت کے ساز و سامان سے لدے ٹرکوں کو صوبائی حدود سے آگے بڑھنے نہیں دے رہے ہیں۔

تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے منگل کو پشاور کے مضافات میں احتجاجی دھرنے میں شریک کارکنوں سے خطاب میں ڈرون حملوں کی مذمت کی اور کہا کہ ان کے ردِ عمل میں کی جانے والی کارروائیوں سے بھی پاکستانی ہی متاثر ہو رہے ہیں۔

اُنھوں نے کہا کہ تحریک انصاف نیٹو رسد کی ترسیل کے خلاف احتجاج جاری رکھے گی۔

’’یہ یاد رکھیں ہم یہ (رسد کی ترسیل) سارا وقت بند رکھیں گے، کسی کا خیال ہے کہ تحریک انصاف کے کارکن تھک جائیں گے (تو) وہ غلط فہمی میں نا رہیں ... اور میں اپنے نوجوانوں کو یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کسی قسم کی غلط حرکت نا کرنا، پاک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ والوں کے لیے کوئی رکاوٹ نا پیش کرنا اور قانون کے دائرے میں رہ کر کام کرنا۔ آپ یہ دکھائیں کہ تحریک انصاف اور ہمارے اتحادی پُرامن ہیں۔‘‘

حکمران مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں نے تحریک انصاف کے احتجاج کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کا یہ اقدام ڈرون حملوں کا مسئلہ حل کرنے کی کوششوں میں فائدہ مند ثابت نہیں ہوگا، جب کہ سابق وزیرِ خارجہ حنا ربانی کھر بھی اپنے حالیہ بیان میں یہ کہہ چکی ہیں کہ نیٹو رسد کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالنا دانشمندانہ نہیں کیوں کہ اس وقت پاکستان کو چاہیئے کہ وہ بین الاقوامی افواج کے افغانستان سے انخلاء میں معاونت کرے۔