پاکستان اور افغانستان سے مسلسل رابطوں پر زور

پاکستان کے لیے نامزد امریکی سفیر رچرڈ اولسن

پاکستان اور افغانستان کے لیے نامزد امریکی سفیروں نے کہا کہ علاقے میں امریکہ کے رابطے مسلسل قائم رہنے چاہئیں۔
پاکستان کے راستے امریکہ اور نیٹو کے سامان کی افغانستان کو ترسیل کی بحالی کے سمجھوتے پر پاکستان اور امریکہ کے دستخط ہونے کے چند گھنٹے بعد ہی، امریکی قانون سازوں نے ایسے دلائل سنے جن میں کہا گیا تھا کہ علاقے میں امریکہ کے رابطے مسلسل قائم رہنے چاہئیں۔

رچرڈ اولسن متحدہ عرب امارات اور افغانستان میں سفارتی عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں۔ اب امید ہے کہ وہ پاکستان میں امریکہ کے سفیر کی حیثیت سے کام کریں گے۔ امریکی سینیٹ میں اپنے تقرر کی توثیق کی سماعت کے دوران، انھوں نے کہا کہ واشنگٹن اور اسلام آباد میں حالیہ کشیدگی سے یہ حقیقت تبدیل نہیں ہوتی کہ مستحکم اور جمہوری پاکستان امریکہ کے مفاد میں ہے۔


’’القاعدہ کی حتمی شکست کا مقصد حاصل کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ مسلسل رابطے ضروری ہیں۔ یہ رابطے افغانستان میں امن اور استحکام کے فروغ، علاقائی استحکام اور خود پاکستان میں سیاسی اور اقتصادی استحکام کے لیے اہم ہیں۔ پاکستان میں عدم استحکام سے ان مقاصد کو نقصان پہنچے گا جو ہم اس علاقے میں حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔

صدر اوباما نے جمیز کننگھم کو افغانستان میں امریکہ کا سفیر نامزد کیا ہے۔ آج کل وہ وہاں نائب سفیر کی حیثیت سے کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ افغانستان میں ابھی بہت سے چیلنج باقی ہیں، لیکن امریکہ کی کوششوں کے نتائج ظاہر ہو رہے ہیں۔

’’آج افغانستان کی مسلسل ترقی کے لیے پائیدار امدادی ڈھانچے کے مختلف اجزا یکجا کر دیے گئے ہیں۔ اس سے افغانستان کے لوگوں اور علاقے کے ملکوں پر یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ سیکورٹی کے انتظامات کی تبدیلی کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہم افغانستان سے لا تعلق ہو رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ طالبان یہ بات سمجھ رہے ہیں۔ ایک عشرے میں پہلی بار وہ اس معاملے پر بحث کر رہے ہیں اور ایسے اشارے دے رہے ہیں کہ وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔‘‘

اولسن اور کننگھم نے ایسے وقت میں یہ بیانات دیے ہیں جب بہت سے قانون سازوں میں، افغانستان میں ترقی کے فقدان اور امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات میں مشکلات پر مایوسی اور بے اطمینانی بڑھتی جا رہی ہے۔ سینیٹ کی کمیٹی کے چیئرمین، ڈیموکریٹ جان کیری نے ان احساسات کو ان الفاظ میں بیان کیا: ظاہر ہے کہ اس معاملے میں دشواریوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔

تاہم دوسرے سینیٹرز نے زیادہ صاف زبان استعمال کی۔ کمیٹی میں چوٹی کے ریپبلیکن، سینیٹر رچرڈ لوگر نے سوال کیا کہ افغانستان کے لیے بڑی مقدار میں فوجی امداد جاری رکھنے کے وعدے کی بنیاد کیا ہے۔

’’یہ ملک اہم ضرور ہے لیکن ہمارے لیے اس کی اتنی اعلیٰ سطح کی اسٹریٹجک اہمیت نہیں ہے خاص طور سے ایسے وقت میں جب ہمارے ملک کو قرض کا بحران درپیش ہے، ہماری مسلح افواج پر بار بار جنگی علاقوں میں تعیناتی سے دباؤ پڑا ہے اور ہم مشرقی ایشیا کو زیادہ اہمیت دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

کمیٹی کے ایک اور ریپبلیکن رکن سینیٹر باب کروکر نے امریکہ اور پاکستان کے درمیان تعلقات کے لیے ’’پے فار پلے‘‘ یعنی پیسہ دو کام لو، کے الفاظ استعمال کیے۔

’’چونکہ یہ ایک طرح سے کاروباری تعلق ہے اور اس کی بنیاد خیر سگالی نہیں ہے، تو ہم وہ وسائل کس طرح حاصل کریں جن کی اس لیے ضرورت ہے کہ ہم پاکستان کو وہ طرزِ عمل اختیار کرنے کے لیے آمادہ کریں جو ہم چاہتے ہیں؟۔‘‘

رچرڈ اولسن نے جواب دیا کہ پاکستان کو اس بات کا قائل کرنا ضروری ہے کہ امریکہ کا تعلق اس علاقے سے مستقل نوعیت کا ہے۔

’’اس علاقے کے لوگوں کو سب سے بڑا اندیشہ یہ ہے اور میں نے یہ بات افغانستان میں اپنی تعیناتی کے دوران اپنے افغان دوستوں سے سنی اور میرے خیال میں پاکستان میں بھی لوگ اسی طرح سوچتے ہیں، کہ بین الاقوامی برادری وہی کچھ کرے گی جو اس نے 1989 سے 1992تک کے عرصے میں کیا تھا۔ جب افغانستان سے سوویت فورسز کی واپسی کا مقصد حاصل ہو گیا تو بین الاقوامی برادری چمپت ہو گئی اور اس نے علاقے سے کوئی واسطہ نہ رکھا۔‘‘

کمیٹی کے چیئر مین جان کیری نے پیش گوئی کی کہ اولسن اور کننگھم کی ان کے نئے سفارتی عہدوں کے لیے تقرری کی توثیق ہو جائے گی۔ انھوں نے کمیٹی کی سنجید ہ سماعت کو یہ کہتے ہوئے مزاحیہ رنگ دے دیا کہ جو سفارتکار مشکل مقامات پر کامیاب رہتے ہیں، انہیں اکثر انعام کے طور پر اور زیادہ مشکل مقامات پر بھیج دیا جاتا ہے۔