صدر اوباما کا امیگریشن اصلاحات کے اہم منصوبے کا اعلان

نئے ایگزیکٹو آرڈر کے نفاذ میں چھ ماہ تک لگ سکتے ہیں۔ اس سے تقریباً 47 لاکھ غیر قانونی تارکین وطن فائدہ اٹھا سکیں گے جنہیں کام کرنے کی بھی اجازت ہو گی۔

امریکہ کے صدر براک اوباما نے امیگریشن نظام میں بڑی اصلاحات کا اعلان کیا ہے جس سے ملک میں موجود لاکھوں غیر قانونی تارکین وطن کے لیے ملک بدری کا خطرہ عارضی طور پر ٹل گیا ہے۔

انھوں نے اپنے اس منصوبے کی جزیات کا اعلان جمعرات کو دیر گئے اپنے خطاب میں کیا۔

"اگر آپ امریکہ میں پانچ سال سے زائد عرصے سے رہ رہے ہیں، اگر آپ کے بچے ہیں اور وہ امریکی شہری یا قانونی رہائشی ہیں، اگر آپ اندراج کراتے ہیں اور آپ کا ماضی میں کوئی مجرمانہ ریکارڈ نہ ہو اور آپ محصولات میں اپنا جائز حصہ دینے کے تیار ہوں۔۔۔آپ ملک بدری کے خوف کے بغیر ملک میں عارضی طور پر قیام کے لیے درخواست دے سکتے ہیں۔"

نئے ایگزیکٹو آرڈر کے نفاذ میں چھ ماہ تک لگ سکتے ہیں۔ اس سے تقریباً 47 لاکھ غیر قانونی تارکین وطن فائدہ اٹھا سکیں گے جنہیں کام کرنے کی بھی اجازت ہو گی۔

امریکہ کے صدر براک اوباما نے امیگریشن کے معاملے پر کانگریس کو ایک طرف رکھتے ہوئے، کہا ہے کہ وہ ملک ٹوٹ پھوٹ کے شکار اس نظام کو درست کرنے کے لیے مزید انتظار نہیں کر سکتا۔

"میں جو بیان کر رہا ہوں وہ احتساب ہے۔۔۔ ایک درمیانی راستہ۔ اگر آپ اس ضابطے پر پورا اترتے ہیں تو آپ باہر نکلیں اور خود کو قانون کے مطابق بنائیں۔ اگر آپ مجرم ہیں تو آپ کو ملک بدر کر دیا جائے گا۔۔۔اگر آپ امریکہ میں غیر قانونی طور پر داخل ہونے کا منصوبہ رکھتے ہیں تو اس بات کے امکانات اور بڑھ گئے ہیں کہ آپ گرفتار اور ملک بدر کیے جائیں۔"

متعدد ریپبلکنز نے اوباما کی طرف سے اپنے منصوبے کو کانگریس میں قانون سازی کی بجائے ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے نافذ کرنے پر تنقید کی ہے۔

انھوں نے غیر قانونی تارکین وطن کو ملک بدر کیے جانے سے محفوظ رکھنے کو جرائم پیشہ لوگوں کو استثنیٰ فراہم کرنے کے مترادف قرار دیا۔

اوباما نے اس تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ’’اس ٹوٹے پھوٹے نظام کو اسی حالت میں رہنے دینا ہی دراصل استثنیٰ ہے۔‘‘

صدر ایک سال تک انتظار کرتے رہے کہ ریپبلکن رہنما ایوان نمائندگان میں امیگریشن اصلاحات کو رائے شماری کے لیے پیش کریں کیونکہ سینیٹ پہلے ہی اسے منظور کر چکی تھی۔

ایوان نمائندگان کے اسپیکر جان بوہنر بھی ان لوگوں میں شامل ہیں جو صدر کے اس اقدام کو غیر آئینی قرار دے رہے ہیں۔ ایک وڈیو پیغام میں انھوں نے الزام عائد کیا کہ " وہ ایک بادشاہ اور ایک حکمران کی طرح برتاؤ کر رہے ہیں"۔

حکام کا کہنا ہے کہ صدر قانونی طرز عمل اپنائے ہوئے ہیں اور وہ اب بھی کانگریس کے ساتھ مل کر کام کرنے پر آمادہ ہیں۔