امریکہ نے کہا کہ شمالی کوریا کی طرف سے گزشتہ سال کیے جانے والے تجربات اس کی جوہری اور میزائل ٹیکنالوجی میں اس کی "اہم" پیش رفت کا مظہر ہیں اور اس تناظر میں پیانگ یانگ کو تخفیف اسلحہ کے مذاکرات کی طرف لانے کے لیے پائیدار دباؤ کو جاری رکھنا ضروری ہے۔
امریکہ کے معاون وزیر خارجہ انتھونی بلنکن نے اپنے جاپانی اور جنوبی کوریا کے ہم منصبوں سے ملاقات کے بعد ایک نیوز کانفرنس میں کہا کہ شمالی کوریا نے گزشتہ سال میزائل کے 24 اور دو جوہری تجربات کیے۔
انہوں نے کہا کہ" حتکہ ان کی (ٹیکنالوجی) میں پیش رفت کرنے کے نام نہاد نا کامی (کے باوجود) ۔۔۔ جو کچھ انہوں نے اس ٹیکنالوجی سے سیکھا ہے وہ اپنے آئندہ تجربات میں اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ اور ہمارے اندازے کے مطابق گزشتہ سال کی غیر معمولی سرگرمی کے نتیجے میں انہوں نے اپنی صلاحیتوں میں قابل ذکر پیش رفت کی ہے۔"
بلنکن نے کہا "ہر گزرتے دن کے ساتھ خطرہ مزید شدید تر ہوتا جا رہا ہے۔" انہوں نے یہ بات شمالی کوریا کے راہنما کی طرف سے ہفتے کو دیئے گئے اس بیان کا حوالا دیتے ہوئے کہی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ ان کا ملک بین البراعظمی بیلسٹک میزائل کا تجربہ کرنے کے قریب ہے۔
بلنکن نے کہا کہ امریکہ، جاپان، جنوبی کوریا اور دیگر ملکوں کے لیے لازمی ہے کہ وہ اس خطرے سے دفاع کے لیے تعاون میں اضافہ کریں۔
بلنکن نے شمالی کوریا پر عائد بین الاقوامی تعزیرات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ "اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی نہایت ضروری ہے کہ ان (میزائل اور جوہری) پروگراموں کو روکنے کے لیے ہم شمالی کوریا پر دباؤ کو برقرار رکھیں تاکہ وہ نیک نیتی سے جوہری ہتھیاروں کے پروگرام کو ختم کرنے کے بارے میں مذاکرات کی طرف واپس آئے۔"
امریکہ کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو بین البراعظمی بلیسٹک میزائل سے متعلق کم کے بیان کے رد عمل میں ایک ٹویٹ میں کہا تھا کہ "ایسا کبھی بھی نہیں ہوگا۔"
پیر کو ہی اپنی ایک دوسری ٹویٹ میں ٹرمپ نے کہا کہ شمالی کوریا کا ہمسایہ اور اتحادی ملک چین اقوام متحدہ کی تسلسل کے ساتھ عائد کی جانے والے تعزایرات میں پیانگ یانگ کی سرگرمیوں کو محدود کرنے میں تعاون نہیں کر رہا ہے۔
بلنکن کا کہنا ہے کہ واشنگٹن نے حالیہ ہفتوں میں شمالی کوریا سے کوئلے کی درآمدات پر عائد کی جانے والے تعزیرات پر عمل درآمد کے حوالے سے چین کی طرف سے مثبت اشارے ملے ہیں۔ تاہم انہوں نے مزید کہا کہ "اس کو جاری رکھنے کے لیے اس میں تسلسل ضروری ہے۔"