بوکو حرام سےلڑائی، امریکی فوجی مشیروں کی تعیناتی کی تجویز

نائجیریا

’نیو یارک ٹائمز‘ نے جمعے کے روز خبر دی ہے کہ تعیناتی کی سفارش افریقہ میں امریکی خصوصی کارروائیوں کے کمانڈر، برگیڈیئر جنرل ڈونالڈ بولڈک نے کی ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ نائجیریا کے اہل کاروں نے سفارشات قبول کرلی ہیں اور اس ضمن میں وہ تفصیلی درخواست پیش کرنے والے ہیں

بوکوحرام کےباغیوں کے خلاف لڑائی میں مدد کی فراہمی کے لیے نائجیریا کی ریاستِ بورنیو میں امریکی فوجی مشیر بھیجنے کے سوال پر اِن دِنوں امریکہ اور نائجیریا کے درمیان بات چیت جاری ہے۔

یہ بات ایک امریکی اہل کار نے وائس آف امریکہ کے قومی سلامتی کے شعبے سے متعلق نمائندے، جیف سیلڈن کو بتائی۔ اُنھوں نے کہا کہ اس معاملے پر بات چیت جاری ہے، لیکن مجوزہ تعیناتی کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں کیا گیا۔

’نیو یارک ٹائمز‘ نے جمعے کے روز خبر دی ہے کہ تعیناتی کی سفارش افریقہ میں امریکی خصوصی کارروائیوں کے کمانڈر، برگیڈیئر جنرل ڈونالڈ بولڈک نے کی ہے۔
خبر میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ کی معائنہ کار ٹیم نے درجنوں مشیروں کو بورنو ریاست کے دارالحکومت، مدیغری میں تعینات کیے جانے کے لیے مشورہ دیا ہے، ’’تاکہ نائجیریا کے فوجی منصوبہ ساز انسداد دہشت گردی کی مؤثر مہم چلا سکیں‘‘۔

بتایا جاتا ہے کہ نائجیریا کے اہل کاروں نے سفارشات قبول کرلی ہیں اور اِس ضمن میں وہ تفصیلی درخواست پیش کرنے والے ہیں۔

کیمرون میں پہلے ہی تقریباً 250 فوجی اہل کار موجود ہیں، جو ڈرون کے ذریعے بوکو حرام کی سرگرمیوں پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

’نیو یارک ٹائمز‘ کے مطابق، اگر نئی تعیناتی کی اجازت مل جاتی ہے تو امریکی افواج صرف غیر لڑاکا مشاورت کے کام سے منسلک ہوجائیں گے۔

سنہ 2009سے نائجیریا میں داعش کا شدت پسند گروہ مہلک نوعیت کی کارروائیوں اور خودکش حملوں کا لا متناہی سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے، جوشمالی نائجیریا کے مسلمان اکثریت والے خطے میں سخت گیر اسلامی ریاست قائم کرنا چاہتا ہے۔

یہ شدت پسند گروپ کیمرون، نائجر اور شاڈ کے کچھ حصوں میں بھی بارہا حملے کر چکا ہے۔

گذشتہ برس اِن ملکوں کی مدد سے، نائجیریا کی فوج زیادہ تر علاقہ واگزار کرانے میں کامیاب ہوگئی تھی؛ لیکن، گروپ نےمارکیٹ اور عوامی مقامات پر حملے جاری رکھے ہوئے ہیں، جس میں وہ خواتین خودکش بم حملہ آوروں کو استعمال کررہا ہے۔

گروپ نے اب تک مجموعی طور پر اندازاً 20000 افراد کو قتل کیا ہے اور تشدد کی کارروائیوں کے باعث 20 لاکھ سے زائد افراد اپنے گھربار چھوڑنے پر مجبور ہوچکے ہیں۔