افغان فوج کی مدد کے لیے اربوں ڈالر کے وعدے، کرپشن کا خطرہ بھی بڑھ گیا

افغان اسپیشل فورس کے ارکان اپنی گریجویشن کے موقع پر ماسک پہنے ہوئے ہیں۔ 17 جولائی 2021

امریکہ اور نیٹو نے سن 2024 تک افغانستان کی فوج اور سیکیورٹی فورسز کے لیے ہر سال 4 ارب ڈالر کی مالی مدد دینے کا وعدہ کیا ہے تاکہ وہ طالبان کی پیش قدمی روکنے کی اپنی کوششیں جاری رکھ سکیں۔

ایسوسی ایٹڈپریس کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ گزشتہ 20 سال کے عرصے میں افغانستان میں فوج تیار کرنے، اس کی تربیت اور ساز و سامان کی فراہمی پر تقریباً 89 ارب ڈالر صرف کر چکا ہے۔

لیکن امریکی حکومت کے ایک نگران ادارے کا کہنا ہے کہ افغانستان میں خرچ کیے جانے والے فنڈز کی نگرانی کا عمل کمزور ہے اور لاکھوں ڈالروں کا غلط استعمال ہوتا ہے اور وہ کرپشن کی نذر ہو جاتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ 31 اگست کے بعد، جب تمام غیر ملکی فورسز افغانستان سے نکل جائیں گی، اس ملک کی سیکیورٹی کے لیے دیے جانے والے فنڈز کی نگرانی عملی طور پر ناممکن ہو جائے گی۔

افغانستان میں امریکی فنڈز کس طرح خرچ ہوئے ہیں

امریکہ سن 2001 سے اب تک افغانستان کی سیکیورٹی کے لیے قومی فوج تیار کرنے، ان کی تربیت اور انہیں ساز و سامان کی فراہمی پر تقریباً 89 ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ ان میں فوج، نیشنل پولیس اور ایلیٹ سپیشل فورسزشامل ہیں۔

افغان سیکیورٹی فورسز کے ارکان تربیت کے مراحل سے گزر رہے ہیں۔

اس کے علاوہ گزشتہ 20 برسوں کے دوران امریکہ نے افغانستان کی معیشت، انفراسٹرکچر اور حکومت کی ترقی کے لیے لگ بھگ 6 ارب ڈالر مزید صرف کیے ہیں۔

امریکہ نے 2022 کے لیے تین ارب 30 کروڑ ڈالر رکھے ہیں جس میں سے ایک ارب ڈالر افغان ایئرفورس پر خرچ کیے جائیں گے۔ ایک ارب ڈالر گولا بارود، گاڑیوں کے تیل اور مرمت کے لیے رکھے گئے ہیں جب کہ 70 کروڑ ڈالر افغان فورسز کی تنخواہوں کے لیے ہیں۔

غیر ملکی امداد کے بغیر افغان حکومت کا مستقبل

یہ جاننا مشکل ہے کہ 2024 کے بعد، جب غیر ملکی فنڈز کی فراہمی رک جائے گی، افغانستان اپنی فوج کو کس طرح برقرار رکھ سکے گا۔

اس وقت افغان حکومت کے بجٹ کا 80 فی صد سے زیادہ حصہ امریکہ اور اس کے اتحادی فراہم کرتے ہیں۔

افغانستان کی قومی ترقی کی شرح اس وقت دو فی صد کے قریب ہے جب کہ ہدف تین اعشاریہ چار فی صد مقرر کیا گیا تھا۔ گزشتہ سات سال کے دوران افغانستان اپنے معاشی اہداف حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔

امدادی فنڈز میں بڑے پیمانے پر کرپشن ہوتی ہے

افغانستان کی تعمیر نو کے اسپیشل انسپکٹر جنرل (سیگار) جان ساپکو کا کہنا ہے کہ گزشہ 20 برسوں کے دوران افغانستان میں فنڈز کے استعمال کی زیادہ تر نگرانی نہیں ہوئی جس کی وجہ سے افغان حکام اور غیر ملکی کانٹرکٹرز دونوں نے ہی بڑے پیمانے پر کرپشن کی۔

افغان سیکیورٹی فورسز کے ارکان کو تربیت دی جا رہی ہے۔

جان ساپکو نے افغانستان پر اپنی کئی رپورٹس میں سے ایک میں کہا ہے کہ فنڈز کی نگرانی نہ ہونے سے بڑے پیمانے پر رشوت ستانی، دھوکہ دہی، خوردبرد اور اقربا پروری کو فروغ ملا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ کرپشن کی وجہ سے افغانستان میں امریکی مشن کو بڑے پیمانے پر نقصان پہنچا ہے۔

بھاری امریکی فنڈز افغان فورسز کو مضبوط بنانے میں ناکام رہے

ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ امریکہ نے افغان فوج کو مضبوط بنانے کے لیے جب بھی فنڈز دیے ہیں، اس کے نتیجے میں ایلیٹ کمانڈوز کا ایک چھوٹا سا گروپ ہی بظاہر طالبان کے خلاف کھڑا ہونے کے قابل ہو سکا۔ اکثر واقعات میں یہ بھی ہوا کہ فوج اور سیکیورٹی اداروں کے افسر طالبان کو پیش قدمی کرتے دیکھ کر اپنے اہل کاروں کو بے یار و مددگار چھوڑ کر چلے گئے۔ حتّیٰ کہ بعض موقعوں پر پیچھے رہ جانے والے سپاہیوں کے پاس خوراک تک نہیں تھی۔

حالیہ ہفتوں میں طالبان نے بہت سے اضلاع میں حکومت کی عمل داری کا خاتمہ کر دیا ہے اور وہاں حفاظت پر مامور ملک کی باقاعدہ فوج اور پولیس نے اکثر مقامات پر ہتھیار ڈال دیے اور طالبان لڑے بغیر ان کے مراکز پر قابض ہو گئے۔

کیا افغان ایئر فورس امریکی انخلا کے بعد اپنی ذمہ داریاں نبھا سکے گی

افغان جنگ کے پورے عرصے کے دوران امریکی فوج کی فضائی مدد میدان جنگ میں اہم ضرورت رہی۔ اس صورت حال کے پیش نظر امریکہ نے افغان ایئر فورس اور اسپیشل ونگ کی تشکیل اور مدد کے لیے ساڑھے 8 ارب ڈالر سے زیادہ صرف کیے۔

افغان طالبان ملک کے نصف سے زیادہ اضلاع پر قابض ہو جانے کے بعد اپنی پیش قدمی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

لیکن اب جب کہ امریکی فورسز افغانستان سے رخصت ہو رہی ہیں، افغان ایئر فورس کو بڑے پیمانے پر مشکلات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ افغان ایئرفورس کے جیٹ طیاروں کی دیکھ بھال امریکہ کے کانٹرکٹر کرتے رہے ہیں جو امریکی فوج کے ساتھ ہی ملک سے چلے جائیں گے۔ افغان عہدے داروں کا کہنا ہے کہ اتحادیوں نے انہیں کبھی بھی اس بارے میں تربیت نہیں دی کہ جیٹ طیاروں کی دیکھ بھال کیسے کی جاتی ہے اور نہ ہی انہوں نے اس کے لیے انفراسٹرکچر فراہم کیا۔

کچھ ایسا ہی معاملہ ان فوجی بکتر بند گاڑیوں اور بھاری ہتھیاروں کا ہے جو امریکی جاتے ہوئے افغان فوج کے لیے چھوڑے جا رہے ہیں۔

اے پی نے بتایا ہے کہ کئی افغان عہدے داروں نے اس سے بات کرتے ہوئے امریکہ اور نیٹو پر کڑی تنقید کی۔ ان کا کہنا تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے یہاں فوجی ساز و سامان کے سپیئر پارٹس بنانے کی ایک بھی فیکٹری نہیں لگائی۔

افغانستان کی وزارت دفاع کے ایک سابق عہدے دار جنرل دولت وزیری نے اے پی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ گولی تک امریکہ سے آتی رہی۔ آخر ہم اسے یہاں کیوں نہیں بنا سکتے تھے۔

کیا افغانستان کا مغرب پر انحصار امریکی مشن کی ناکامی ہے

فاؤنڈیشن فار دی ڈیفنس آف ڈیموکریسیز کے ایک سینئر فیلو بل روگیو کہتے ہیں کہ افغان حکومت اور فوج کا مغربی مدد پر ضرورت سے زیادہ انحصار، اصل میں اتحادیوں کی ناکامی ہے۔

کابل میں امریکی سفارت خانے کی عمارت، امن و امان کی مخدوش صورت حال کے باعث عملے کے زیادہ تر ارکان چاردیواری کے اندر ہی رہتے ہیں۔

روگیو کا کہنا ہے کہ امریکہ نے غلط قسم کی فوج کو تربیت دی۔ انہوں نے افغانوں کو مغربی طرز کی فوجی تربیت دی، جب کہ انہیں فوج کو اس نوعیت کی تربیت دینی چاہیے تھی کہ وہ طالبان سے لڑ سکے۔

روگیو نے، جو کہ ایک فوجی جریدے ' دی لانگ وار جرنل' کے سینئر ایڈیٹر بھی ہیں، کہا کہ اگر افغانستان پر نظر ڈالی جائے تو ایئر فورس اور اسپیشل فورسز نے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا، لیکن باقاعدہ فوج، جو دفاع کا ایک بڑا حصہ ہوتی ہے، اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام رہی۔

کئی سال قبل امریکی عہدے داروں نے اس وقت افغانستان میں امریکی فنڈز سے چلنے والے پراجیکٹس کی نگرانی شروع کی تھی جب ملک بھر میں سیکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورت حال کی وجہ سے امریکی سفارت خانے کے اہل کاروں کی نقل و حرکت ڈرامائی حد تک کم ہو گئی تھی۔

امن و امان کی ابتر ہوتی ہوئی صورت حال

ساپکو کی جولائی کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سن 2016 تک امریکی مشیر، افغان سیکیورٹی عہدے داروں سے کابل تک میں ان کے دفاتر میں بھاری اسلحہ سے لیس مسلح قافلوں کے بغیر ملاقات نہیں کر سکتے تھے۔ اور بعد ازاں انہوں نے اس کی بجائے ہیلی کاپٹر کا استعمال شروع کر دیا۔

Your browser doesn’t support HTML5

امریکہ میں مقیم افغان اقلیتوں کو ملک کے مستقبل کے بارے میں تشویش

اپریل کے وسط سے کابل میں امریکی سفارت خانے کا عملہ انتہائی ضروری اہل کاروں تک محدود کر دیا گیا ہے۔ سفارت خانے کے ایک عہدے دار نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ سفارت خانے میں 1400 امریکی موجود ہیں، جن میں سے زیادہ تر کی نقل و حرکت سفارت خانے کے احاطے کے اندر تک محدود ہے۔

روگیو کہتے ہیں کہ امریکہ اور نیٹو کے لیے اپنی افغانستان میں موجودگی کے دوران بھی امداد کی نگرانی کرنا مشکل رہا ہے اور جب وہ یہ ملک چھوڑ جائیں گے تو عملی طور پر ان کی لیے فنڈز کی نگرانی کرنا ناممکن ہو جائے گا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ اب جب کہ ملک بھر میں طالبان بڑھتے چلے جا رہے ہیں، ان حالات میں صرف نقد رقوم کی لوٹ مار ہی افغان عہدے داروں کی ترجیح بنتی جائے گی۔