بائیڈن انتظامیہ آن لائن مواد کو ہیکرزسے محفوظ رکھنے کے لیے مزید جامع وفاقی ضوابط کے نفاذ پر زور دے رہی ہے، اس میں سائبر سیکیورٹی کی ذمہ داریوں کو عام صارفین سے صنعت کومنتقل کرنا اوررینسم ویئریا تاوان کی غرض سے کی جانے والی ہیکنگ کو قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھناشامل ہے۔
یہ منصوبہ اس قومی سائبرحکمت عملی کا حصہ ہے جسے انتظامیہ نے جمعرات کوجاری کیا، جس میں طویل المعیاد اہداف کا خاکہ پیش کیا گیا ہےکہ کس طرح افراد،حکومت اورکاروبارڈیجیٹل دنیا میں محفوظ طریقے سے کام کر سکتے ہیں۔ اس میں کمپیوٹراورسافٹ ویئرانڈسٹری کو’’ڈیزائن کے لحاظ سے محفوظ‘‘ پروڈکٹس تیار کرنے کی ذمّہ داری سپرد کرنا شامل ہے۔ انہیں مارکیٹ میں متعارف ہونے سے پہلے ایسی خامیوں کو دور کرنا ہوگا، جن کا استحصال ممکن ہو سکتا ہے۔
قائم مقام نیشنل سائبرڈائریکٹر کیمبا والڈن نے بدھ کوایک نیوز بریفنگ میں اس حکمت عملی کا عمومی جائزہ لیا۔ انہوں نے کہا کہ ’’یہ حکمت عملی بنیادی طورپرامریکہ کے سائبر سوشل معاہدے کا از سرنو تصورپیش کرتی ہے اورسائبرخطرات سے نمٹنے کی ذمہ داری کودوبارہ متعین کرے گی اوراسے اس طرح متوازن کیا جائے گا کہ یہ کام ان کے سپرد ہوجواسے بخوبی سنبھال سکیں‘‘۔
والڈن نے زور دیا کہ ’’افراد، چھوٹے کاروباروں اورمقامی حکومتوں سے سائبرسیکیورٹی کا بڑا بوجھ اٹھانے کے لیے کہنا نہ صرف غیرمنصفانہ ہے بلکہ غیرموثر ہے’’۔
انہوں نے مزید کہا کہ ’’ہمارے ڈیجیٹل ماحولیاتی نظام میں سب سے بڑے، سب سے زیادہ قابل اوربہترین پوزیشن والے ادارے اورافراد سائبرخطرات کوسنبھالنے اورہم سب کومحفوظ رکھنے کے اہل ہیں اوران کویہ بوجھ برداشت کرنا چاہیے۔‘‘
انتظامیہ کی حکمت عملی پانچ ستونوں پر قائم کی جا رہی ہے۔ ان میں اہم بنیادی ڈھانچے کا دفاع، دھمکی دینے والے افراد اور گروپوں کو روکنا اورختم کرنا، سیکیورٹی اورلچک رکھنےوالی مارکیٹ فورسز کی تشکیل، ایک لچکدار مستقبل میں سرمایہ کاری ، اورمشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے بین الاقوامی شراکت داری قائم کرنا شامل ہیں۔
قومی سلامتی کی نائب مشیر برائے سائبراورجدید ٹیکنالوجی، این نیوبرگر نے خبردارکیا کہ مجرموں اورریاستی عناصر نے پوری دنیا میں تباہ کن سائبراوررینسم ویئرحملے کیے ہیں۔
اس نئی حکمت عملی کے تحت رینسم ویئر کے خطرات سے مجرمانہ سرگرمیوں کے بجائے قومی سلامتی کے مسئلے کے طور پر نمٹا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ’’امریکیوں کو یہ اعتماد ہونا چاہئے کہ وہ اہم سہولیات، اسپتالوں، گیس پائپ لائنوں،فضائی اور پانی کی سہولتوں پر بھروسہ کر سکتے ہیں۔‘‘
انہوں نے مزید لچکدار سائبرنظام بنانے کے لیے انتظامیہ کے عزم پر زور دیتے ہوئے کہاکہ سائبر حملوں کو روکنے کے لیے بنیادی ڈھانچہ اوربین الاقوامی شراکت داری کو مضبوط بنانا بھی اس حکمت عملی کا حصّہ ہے۔
اس حکمت عملی میں امریکی سائبرافرادی قوت، بنیادی ڈھانچے اورڈیجیٹل ماحولیاتی نظام میں طویل مدتی سرمایہ کاری اورقومی پیمانے پر لچک اورمعاشی مسابقت کو بہتر بنانے کے لیے نئی ٹیکنالوجیز کی نشاندہی کرنے کا بھی مطالبہ کیا گیا ہے۔
(وی او اے نیوز)