امریکہ شام میں اپنی فوجی موجودگی برقرار رکھے گا

امریکی فوجی گاڑیوں کا قافلہ شام کے شہر ڈوہوک سے عراق کی جانب گامزن ہے۔

امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے کہا ہے کہ پیٹاگان شام کے شمالی علاقوں میں موجود تیل کی تنصیبات کی حفاظت کیلئے وہاں کچھ امریکی فوجیوں کی موجودگی برقرار رکھنے پر غور کر رہا ہے تاکہ وہ داعش کے ہاتھ لگنے سے محفوظ رہیں۔

انہوں نے کہا کہ امریکی فوجی کرد ملیشیا ایس ڈی ایف کے ساتھ مل کر تیل کی تنصیبات کا تحفظ کریں گے۔

نیوز ایجنسی رائٹرز کے مطابق شمالی شام کے صوبے ڈوہوک کے سہیلا بارڈر کراسنگ سے 100 کے لگ بھگ بکتر بند گاڑیاں امریکی فوجیوں اور دفاعی ساز و سامان کے ساتھ پیر کے روز عراق میں داخل ہوئیں۔

امریکی فوجیوں کا یہ انخلا ترکی کے ساتھ امریکہ کی عارضی جنگ بندی کے سمجھوتے سے ممکن ہوا ہے۔ ترکی کی طرف سے یہ عارضی جنگ بندی 22 اکتوبر کے روز ختم ہو رہی ہے۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے خبردار کیا ہے کہ اگر کرد ملیشیا نے شام میں ترکی کی سرحد کے ساتھ واقع علاقے خالی نہ کیے تو ترکی دوبارہ حملے شروع کر دے گا۔ ترکی کی حکومت کرد ملیشیا کو یہ کہتے ہوئے دہشت گرد قرار دیتی ہے کہ اس کے ترکی میں موجود باغی کردوں کے ساتھ روابط ہیں۔

امریکی وزیر دفاع مارک ایسپر نے افغانستان کے دورے کے دوران میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بیشتر امریکی فوجی شام سے جا چکے ہیں تاہم کچھ امریکی فوجی مقامی کرد ملیشیا ایس ڈی ایف کے ساتھ مل کر تیل کی تنصیبات کے تحفظ کیلئے علاقے میں موجود رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ شام میں باقی رہ جانے والے فوجیوں کی تعداد کا تعین پینٹاگان کرے گا جو اس سلسلے میں حتمی فیصلہ کرنے سے قبل تمام ممکنہ آپشنز کا جائزہ لے گا۔

انہوں نے کہا کہ اس اقدام کا مقصد داعش اور دیگر دہشت گرد گروپوں کو تیل کی تنصیبات سے حاصل ہونے والی آمدنی تک رسائی کو روکنا ہے۔ شام کا یہ علاقہ تیل سے مالا مال ہے۔

اتوار کے روز اخبار نیویارک ٹائمز نے امریکہ کے سرکاری اہل کاروں کے حوالے سے خبر دی تھی کہ صدر ٹرمپ شمالی شام کی تیل کی تنصیبات کے قریبی شہروں میں 200 کے لگ بھگ امریکی فوجیوں کی تعیناتی کے سلسلے میں پینٹاگان کی تجویز منظور کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔

شمالی شام سے امریکی فوجوں کی واپسی سے پیدا ہونے والا خلا پر کرنے کیلئے ترکی، شام کی سرکاری فوج اور روس بھرپور کوششیں کر رہے ہیں۔