فوجی عدالت میں مقدمے کا فیصلہ اور سیاسی عوامل

Напис на прапорі - "Нема Бога крім Аллаха, і Мухаммед його посланець"

2009ء میں اوباما انتظامیہ نے اعلان کیا تھا کہ گیارہ ستمبر کے حملوں کی سازش کرنے والے مبینہ ملزموں پر وفاقی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ ایوانِ نمائندگان میں ریاست ورجینیا کے رکن بوبی اسکاٹ کہتے ہیں کہ اس کے بعد سے امریکی کانگریس نے گوانتانا مو بے، کیوبا میں قید ملزموں کو امریکہ منتقل کرنا نا ممکن بنا دیا ہے۔

بعض ریپبلیکن اور ڈیموکریٹک قانون ساز کہہ رہے ہیں کہ خالد شیخ محمد کے مقدمے کے بارے میں اوباما انتظامیہ نے اپنے فیصلے میں جو تبدیلی کی ہے، اس میں سیاست کا دخل ہے۔ پیر کے روز انتظامیہ نے اعلان کیا کہ خالد شیخ محمد اور اس ساتھ سازش میں شریک ملزموں پر سول عدالت کے بجائے فوجی کمیشن میں مقدمہ چلایا جائے گا۔

ریپبلیکن کانگریس مین جمیز سینسن برینر(James Sensenbrenner) کا کہنا ہے کہ صدر اوباما کے اس فیصلے میں کہ گیارہ ستمبر کے دہشت گردوں کے حملوں کی سازش میں ملوث ملزموں پر ملٹری کمیشنوں میں مقدمے چلائیں جائیں گے، صدارتی سیاست کا دخل ہے۔ ’’یہ بڑا عجیب اتفاق ہے کہ انتظامیہ نے اس پالیسی میں قلابازی عین اس دن کھائی ہے جس دن صدر نے اپنے دوبارہ انتخاب کی مہم کا اعلان کیا۔ میرا اور دوسرے بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ امریکہ کی سلامتی کا انحصار سیاست پر نہیں ہونا چاہیئے‘‘۔

منگل کے روز ایوانِ نمائندگان کی عدلیہ کی کمیٹی کے سماعت میں جیمز نے کہا کہ صدر کو یہ بات سمجھنے میں کہ خالد شیخ محمد اور ان کے ساتھی جنگی مجرم ہیں، دو برس نہیں لگنے چاہیئے تھے۔ ’’گیارہ ستمبر کے مظالم کوئی چوری ڈکیتی جیسے گھریلو جرائم نہیں تھے۔ وہ پورے ملک کے خلاف کھلم کھلا جنگی کارروائیاں تھیں۔ لہٰذا پورا امریکہ اور اس کے لوگ اس حملے کا نشانہ بنے تھے‘‘۔

لِنڈسے گراہم

ساؤتھ کیرولائنا کے ریپبلیکن سینیٹر لنڈسے گراہم نے اس قانون کی تحریر میں اہم کردار ادا کیا تھا جس کے تحت ملٹری کمیشن قائم کیے گئے ہیں۔ انھوں نے اس اقدام کی تعریف کی۔ پیر کے روز ریاست ایری زونا کے ریپبلیکن سینیٹر جان مکین اور ریاست کنیٹی کٹ کے سینیٹر جو لیبرمین نے ایک بیان جاری کیا جس میں صدر اوباما کی تعریف کی گئی ہے کہ انھوں نے اس معاملے میں اپنا موقف تبدیل کر لیا ہے۔

2009ء میں اوباما انتظامیہ نے اعلان کیا تھا کہ گیارہ ستمبر کے حملوں کی سازش کرنے والے مبینہ ملزموں پر وفاقی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے گا۔ ایوانِ نمائندگان میں ریاست ورجینیا کے رکن بوبی اسکاٹ کہتے ہیں کہ اس کے بعد سے امریکی کانگریس نے گوانتانا مو بے، کیوبا میں قید ملزموں کو امریکہ منتقل کرنا نا ممکن بنا دیا ہے۔’’ کل کے اعلان سے اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ امریکی کانگریس نے انتطامیہ کے لیے عملی طور پر کوئی اور راستہ کھلا نہیں چھوڑا تھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس معاملے میں کانگریس نے جو کچھ کیا وہ دانشمندی کے خلاف ہے‘‘۔

اسکاٹ کہتے ہیں کہ وفاقی عدالتیں اب بھی دہشت گردوں پر مقدمہ چلانے کے لیے بہترین جگہیں ہیں کیوں کہ ان عدالتوں میں مجرم قرار دیے جانے کے فیصلوں کا امکان زیادہ ہوتا ہے اور ایک بار فیصلہ ہونے کے بعد مزید مقدمے بازی نہیں ہوتی۔ ’’گذشتہ دس برسوں میں وفاقی عدالتوں نے 400 افراد کو دہشت گردی کے الزامات میں سزا دی ہے۔ اس کے مقابلے میں نائن الیون کے بعد سے اب تک ملٹری کمیشنوں کے تحت صرف چھہ لوگوں کو سزا ہوئی ہے۔ پھر یہ بات بھی یقینی نہیں ہے کہ عدالتوں کے سامنے کمیشنوں کے فیصلے قائم رہیں‘‘۔

ریپبلیکن رکن کانگریس لیمرسمتھ اس رائے سے متفق نہیں ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ صدر اوباما کے ابتدائی فیصلے سے کہ غیر ملکی دہشت گردوں پر سویلین عدالتوں میں مقدمہ چلایا جائے ان کی سزا یابی میں مشکل پیش آتی ہے۔

امریکہ کو دہشت گردوں اور گیارہ ستمبر کے حملوں کی سازش تیار کرنے والے مبینہ ملزموں پر کہاں مقدمہ چلانا چاہیئے، یہ طویل عرصے سے اختلافی مسئلہ رہا ہے۔

انسانی حقوق اور قانون کی بالا دستی کے حامی گروپوں نے فوجی کمیشنوں کی مخالفت کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اس طرح بین الاقوامی معیاروں کی خلاف ورزی ہو گی جن کے تحت ملزموں کو زیادہ حقوق دیے جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ برسوں تک مقدمے بازی ہوتی رہے گی۔


گیارہ ستمبر کو ہلاک ہونے والے ایک شخص ڈیوڈ بیمر کے والد ڈاڈ بیمر نے منگل کی سماعت میں کہا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ خالد شیخ محمد کو اس المناک دن کے دس برس بعد اور اس واقعے میں اپنے رول کا اقرار کرنے کے چار سال بعد، فخر سے یہ اعلان کرنے کے بعد کہ صحافی ڈینیئل پرل کواس نے اپنے ہاتھوں سے قتل کیا تھا، اب تک انصاف کے کٹھرے پر نہیں لایا گیا ہے؟

ڈاڈ بیمریونائیٹد ایرلائن کی فلائٹ 93 میں سفر کر رہے تھے۔ انھوں نے جہاز میں موجود دہشت گردوں پر قابو پانے کی کوشش کی تھی۔ یہ جہاز ریاست پینسلوینیا کے مقام شینکس ویلے (Shanksville) میں گر کر تباہ ہو گیا تھا اور چار ہائی جیکروں سمیت جہاز میں سوار 44 افراد ہلاک ہو گئے۔