ہم جنس پرستوں پر امریکی فوج میں اعلانیہ کام کرنے پر عائد بندش کو ہٹانے کے سلسلے میں کی جانے والی مجوزہ قانون سازی امریکی سینیٹ میں آگے نہ بڑھ سکی۔
سینیٹروں نے منگل کے روز 725ارب ڈالر کے فوجی اخراجات کی کثیر رقم کے مجوزہ بِل کو 43کے مقابلے میں 56ووٹوں سے منظور کیا، جس میں ‘نہ پوچھو، نہ بتاؤ’کی پالیسی ختم کرنے کی شق شامل تھی ۔ لیکن اِس کی منظوری کے لیے 60ووٹ درکار تھے۔
قانون کی رو سے، ‘گیئز’اور ‘لیسبین’ تب تک فوج میں کام کر سکتے ہیں جب تک اُن کی جنس سے متعلق کوئی بات سامنے نہیں آتی۔
فوجی اخراجات کے مجوزہ بِل میں یہ شق سینیٹ کے اکثریتی قائد ہیری ریڈ نے شامل کی تھی۔
1993ء میں جب سے یہ پالیسی بنائی گئی ہے تقریباً 13000افراد فوج سے فارغ ہو چکے ہیں۔
ایریزونا کے سینیٹر جان مک کین اور دیگر اقلیتی ری پبلیکنز نے دفاعی بِل میں یہ شق شامل کرنے کی مخالفت کی۔ اُنھوں نے ڈیموکریٹس پر الزام لگایا کہ وہ دفاعی قانون سازی میں متنازعہ معاملہ شامل کرکے انتخابی سال کی سیاست پر عمل پیرا ہیں۔ اُنھوں نے اور اُن کی پارٹی کے ارکان نے قانون سازو ں سے مطالبہ کیا کہ وہ اُس وقت کا انتظار کریں جب تک پینٹاگان اس بات کا جائزہ مکمل نہیں کرلیتا کہ فوجیوں پر سےایسی پابندی اٹھائے جانے کے کیا اثرات مرتب ہوں گے۔
وزیرِ دفاع رابرٹ گیٹس، اور چیرمین جوائنٹ چیفز آف اسٹاف، نیوی کے ایڈمرل مائیکل ملن دونوں نے کُھل کر اِس قانون کے خاتمے کی حمایت کی ہے۔ لیکن منگل کو ہونے والی کانگریس کی سماعت کے دوران ‘میرین کور’ کی قیادت کے لیے مسٹر اوباما کے نامزد کردہ جنرل جیمز اَموس نے اِس پابندی کو ہٹانے کی مخالفت کی ۔
اِس ماہ کے اوائل میں کیلی فورنیا کے ایک وفاقی جج نے ‘نہ پوچھو، نہ بتاؤ’ کی شق کو غیر آئینی قرار دیا تھا۔