امریکہ اور میکسیکو کے درمیان بارڈر اب ایک بار پھر خبروں میں ہے، لیکن ذرا مختلف انداز میں۔
ستونوں کی طرح استادہ فولاد کی اونچی اور مضبوط باڑ، جس کے آر پار دیکھا جا سکتا ہے، دونوں ملکوں کے بچوں اور بڑوں کو تفریح اور کھیل مہیا کر رہی ہے۔ کیونکہ اس میں چند جھولے نصب کر دیے گئے ہیں۔
لوگ باڑ کو عبور تو نہیں کر سکتے، لیکن ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کچھ دیر کے لیے جھولا تو جھول سکتے ہیں۔
صدر ٹرمپ امریکہ اور میکسیکو کے درمیان سرحد پر دیوار بنانا چاہتے ہیں، جس کا مقصد سرحد پار سے آنے والے غیرقانونی تارکین وطن کو روکنا ہے۔
صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن نہ صرف امریکیوں سے ان کا روزگار چھین لیتے ہیں، بلکہ وہ جرائم کا بھی سبب بن ر ہے ہیں۔
حزب اختلاف کی جماعت ڈیموکریٹک پارٹی صدر ٹرمپ کی دیوار کے منصوبے کی شديد مخالف ہے۔
باڑ کے آرپار جھولے کا تصور کیلی فورنیا کے دو پروفیسروں نے پیش کیا تھا۔ یہ جھولے ٹیکساس کے مضافاتی علاقے ایل پاسو اور اس کے بالمقابل سرحد کی دوسری جانب میکسیکو کے سرحدی قصبے سیڈا وارز کے درمیان آہنی باڑ پر لگائے گئے ہیں۔
رونالڈ رائل یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میں آرکیٹکچر کے پروفیسر ہیں، جب کہ ورجینیا سین فریٹلو، سن ہوزے سٹیٹ یونیورسٹی میں ڈیزائن پڑھاتے ہیں۔ انہوں نے دس سال پہلے دونوں ملکوں کے درمیان فولادی دیوار میں جھولا نصب کرنے کا تصور پیش کیا تھا۔ تاکہ دونوں ملکوں کے لوگ، سرحد پار کیے بغیر ایک دوسرے کے ساتھ مل کر تفریح کر سکیں۔
دس سال کے بعد ان کا یہ خواب ایک حقیقت کے روپ میں موجود ہے اور دونوں ملکوں کے بچے اور بڑے سرحد عبور کیے بغیر مل کر ہنستے ہوئے جھولا جھول رہے ہیں اور خوش ہو رہے ہیں۔
پروفیسر رائل کہتے ہیں کہ اب امریکہ اور میکسیکو کے تعلقات میں دونوں ملکوں کے درمیان قائم فولادی دیوار حقیقی معنوں میں فلکرم بن گئی ہے۔ اب دونوں جانب سے بچے اور بڑے، معنوی انداز میں ایک دوسرے سے رابطے میں آتے ہیں اور انہیں یہ پتا چلتا ہے کہ تعلقات بھی جھولے کی طرح ہوتے ہیں۔ اس کے ایک پلڑے پر دباؤ کا اثر فوری طور پر دوسرے پلڑے کی جانب منتقل ہو جاتا ہے۔
سوشل میڈیا پر پوسٹ ہونے والی ویڈیو میں دونوں جانب کے بچوں اور بڑوں کو سرحد کے آر پار سے مل کر جھولا جھولتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔