شام کی صورت حال پر نظر رکھنے والی ایک تنظیم نے کہا ہے کہ امریکہ کی قیادت میں ہونے والی تازہ فضائی کارروائیوں میں کم از کم دو صوبوں میں ’دولت اسلامیہ‘ کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
برطانیہ میں قائم ’’سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس‘‘ نے پیر کو کہا ہے کہ ان فضائی کارروائیوں میں رات گئے حلب اور رقہ میں جنگجوؤں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
امریکی طیاروں نے عرب اتحادیوں کی مدد سے گزشتہ منگل سے شام میں فضائی کارروائیوں کا آغاز کیا جب کہ اس سے قبل اُس نے عراق میں جنگجوؤں کے خلاف فضائی کارروائیاں شروع کی تھیں۔
’دولت اسلامیہ‘ کے جنگجوؤں نے اس سال پیش قدمی کرتے ہوئے عراق و شام کے ایک وسیع علاقے پر قبضہ کیا۔
صدر اوباما یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکہ نے ’دولت اسلامیہ‘ اور شام میں موجود دوسرے شدت پسند گروہوں کی ’صلاحیت‘ کا اندازہ کم لگایا تھا۔
امریکہ کے صدر نے ’سی بی ایس‘ ٹیلی ویژن کو دیئے گئے ایک انٹرویو میں اُن قیاس آرائیوں کو مسترد کر دیا کہ اگر امریکہ نے دو سال قبل اعتدال پسند شامی باغیوں کو مسلح کرنے میں مدد کی ہوتی تو شاید وہاں صورت حال بہتر ہوتی ۔
صدر نے عراق کے سابق وزیر اعظم نوری المالکی کو بھی جزوی طور پر عراق کی موجودہ صورت حال کا ذمہ دار ٹھراتے ہوئے کہا کہ انھوں نے ملک کو متحد رکھنے کا موقع گنوا دیا۔
امریکی صدر نے کہا کہ مالکی کو سنی اور کرد آبادی پر اعتماد نہیں تھا اور اس لیے ایک اتحادی حکومت تشکیل دینے کی بجائے ان کی دلچسپی اپنے لیے شعیہ برادری کی حمایت کو مضبوط کرنے پر تھی۔
اوباما نے کہا کہ شامی، عراقی اور اس خطے میں دوسری آبادیوں کو اس بارے میں سوچ بچار کرنی چاہیئے کہ ( دوسروں کو) سیاسی عمل میں شریک کرنے کے کیا معنی ہیں۔
انھوں نے کہا کہ نوجوان جو صرف یہ سوچتے ہیں کہ کیا وہ سنی ہیں یا شیعہ اس کی بجائے ان کی توجہ تعلیم کے حصول اور بہتر روزگار کے بارے میں ہونی چاہیئے۔