انتخاب میں مبینہ مداخلت اور ’فون ٹیپنگ‘ کے معاملات پر امریکی قانون سازوں کا غور

صدر ڈونلڈ ٹرمپ

قانون سازوں کا کہنا ہے کہ وہ سی آئی اے کی طرف سے جمع کی گئی حساس معلومات کا جائزہ لے رہے ہیں۔

امریکی قانون ساز گزشتہ سال کے صدارتی انتخابات میں مبینہ روسی مداخلت کے بارے میں مزید جاننے کے لیے تیزی سے پیش رفت کر رہے ہیں۔

جب کہ وہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اس دعوے کے بارے میں بھی مواد کی تلاش میں بھی ہیں کہ سابق صدر براک اوباما کے احکامات پر نیو یارک میں واقع ٹرمپ ٹاور ہیڈکوارٹر کے ٹیلی فون ٹیپ کیے گئے۔

وہ سینیٹر اور کانگرس کے ارکان جو سینیٹ یا ایوان کے انٹیلی جنس سے متعلق پینل میں شامل ہیں، حالیہ دنوں میں واشنگٹن کے باہر واقع سینٹرل انٹیلی جنس ایجنسی میں سائبر سکیورٹی پر روسی حملوں سے متعلق خام انٹیلی جنس رپورٹوں کو دیکھنے کے لیے وہاں کا دورہ کر رہے ہیں۔

ان مبینہ روسی اقدامات کا مقصد ٹرمپ کو ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار سابق وزیر خارجہ ہلری کلنٹن کے مقابلے انتخاب میں جیتنے میں مدد کرنا تھا۔

قانون سازوں کا کہنا ہے کہ وہ ’سی آئی اے‘ کی طرف سے جمع کی گئی حساس معلومات کا جائزہ لے رہے ہیں اور اس کے لیے وہ وہاں مزید ایسے دوروں کا ارادہ رکھتے ہیں۔ سینیٹ اور ایوان نمائندگان کی انٹیلی جنس کمیٹیاں آنے والے ہفتوں میں معاملات پر کھلی سماعت کرنے کا ارادہ رکھتی ہیں۔

امریکہ کے انٹیلی جنس ادارے پہلے ہی یہ نتیجہ اخذ کر چکے ہیں کہ روسی صدر ولادیمر پوٹن نے کلنٹن کی مہم کے سربراہ جان پوڈیسٹا کے کمپیوٹر کو ہیک کرنے کا حکم دیا تھا۔

بعد ازاں حساس معلومات افشا کرنے والے گروپ وکی لیکس نے نومبر کے صدارتی انتخاب سے پہلے ہزاروں کی تعداد میں ای میل جاری کر دی تھیں۔ ان میں سے کئی ای میلز ڈیموکریٹک امیدوار ہلری کلنٹن کے لیے پریشانی کا باعث بنی۔

دوسری طرف ایوان نمائندگان کی عدلیہ سے متعلق کمیٹی میں ریپبلکن اکثریتی ارکان نے وفاقی تحقیقاتی بیورو کے ڈائریکٹر جیمز کومی سے کہا کہ وہ انہیں انتخاب میں روسی مداخلت کے معاملے پر بریفنگ دیں۔

اس کے ساتھ قانون سازوں نے مزید کہا کہ وہ "بہت ہی سنگین الزامات" کے بارے میں بھی معلومات چاہتے ہیں جو کہ ٹرمپ کے گزشتہ اختتام ہفتہ میں کیے گئے اس دعوے سے متعلق ہیں کہ اوباما نے مببنہ طور پر ان کے فون ٹیپ کرنے کا حکم دیا تھا۔

کومی نے محکمہ انصاف سے کہا کہ وہ ٹرمپ کے الزامات کو مسترد کر دیں تاہم محکمہ انصاف کی طرف سے اس بارے میں ابھی تک کچھ نہیں کہا گیا ہے۔

امریکہ کے قانون کے مطابق صدر اپنے طور پر فون ٹیپ کرنے کا حکم نہیں دے سکتے ہیں تاہم اس کے لیے انہیں عدالتی حکم حاصل کرنا پڑتا ہے جس میں ججوں کے سامنے یہ جواز پیش کرنا ہوتا ہے کہ ایسا کرنا کیوں ضروری ہے۔ اوباما کے ڈائریکٹر انٹیلی جنس جیمز کلیپر نے بھی کہا ہے کہ فون ٹیپنگ نہیں ہوئی ہے۔