امریکی کانگریس کے ایوانِ نمائندگان میں مسلمان خواتین اراکین راشدہ طلیب اور الہان عمر نے بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں سے متعلق مذمتی قرارداد پیش کی ہے۔
جمعرات کو پیش کی گئی قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرنے کے معاملے پر کشمیر کے عوام کی رائے کا احترام کرنا ضروری ہے۔ اراکین کانگریس نے پاکستان اور بھارت پر زور دیا ہے کہ وہ مذاکرات کے ذریعے باہمی تنازعات حل کریں۔
ڈیمو کریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والی مسلمان خواتین اراکین نے قرارداد میں زور دیا ہے کہ کشمیری عوام کے حق خود ارادیت کا دیرینہ مطالبہ تسلیم کیا جانا چاہیے۔ قرارداد کو کسی اور رکن کانگریس کی حمایت حاصل نہیں ہے تاہم اسے مزید کارروائی کے لیے امور خارجہ کی کمیٹی کو ارسال کر دیا گیا ہے۔
قرارداد میں کشمیری عوام کی رضا مندی کے بغیر جموں و کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کرنے کے یک طرفہ بھارتی اقدام پر تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے۔
دونوں اراکین نے زور دیا ہے کہ اس ضمن میں کشمیری عوام کو مشاورتی عمل میں شامل کیا جانا ضروری تھا۔
قرارداد میں مطالبہ کیا گیا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر سے نقل و حمل اور مواصلاتی پابندیاں فوری طور پر ہٹائی جائیں۔
جموں و کشمیر میں صحافیوں کو ہراساں کیے جانے اور مذہبی پابندیوں کی بھی مذمت کی گئی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں مساجد اور دیگر مذہبی مقامات کو بند کیا گیا ہے جو مذہبی آزادیوں کے منافی ہے۔
بین الاقوامی مبصرین کی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہوئے کشمیر میں صحافیوں کی گرفتاریوں اور حبس بیجا میں رکھنے کی اطلاعات کی بھی مذمت کی گئی ہے۔
خیال رہے کہ بھارت نے پانچ اگست کو آرٹیکل 370 ختم کر کے کشمیر کی نیم خود مختار حیثیت ختم کر دی تھی۔ جس کے بعد سے کشمیر میں نقل و حمل اور مواصلاتی پابندیاں عائد ہیں۔ لیکن بھارتی حکومت کا موقف ہے کہ کشمیر میں اب معمولات زندگی بحال ہو گئے ہیں۔
حال ہی میں بھارت کے وزیر داخلہ امت شاہ نے ایوان بالا راجیہ سبھا میں رپورٹ پیش کی تھی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ کشمیر میں زندگی معمول پر آ چکی ہے۔
البتہ پاکستان سمیت انسانی حقوق کی تنظیمیں اور غیر جانبدار مبصرین کشمیر کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
قرارداد میں کہا گیا ہے کہ بھارتی حکومت نے انڈین فوج اور دیگر سیکیورٹی اداروں کو کھلی چھوٹ دے رکھی ہے کہ وہ کشمیر میں اپنی من مانیاں کر سکیں۔ علاوہ ازیں عسکری تنظیمیں 'لشکر طیبہ'، 'حزب المجاہدین' اور 'حرکت المجاہدین' جیسی تنظیمیں بھی کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے عمل میں برابر کی شریک ہیں۔
جموں و کشمیر میں نہتے شہریوں پر پیلٹ گن اور ربر کی گولیوں کے استعمال پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
راشدہ طلیب کی جانب سے پیش کی گئی قراراد میں امریکی محکمہ خارجہ سے یہ مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ کشمیری نژاد امریکی شہریوں کے کشمیر میں موجود اہلخانہ سے رابطے کے لیے مداخلت کرے۔
علاوہ ازیں رکن کانگریس بریڈ شرمین نے امریکہ کی نمائندہ خصوصی برائے جنوبی ایشیا ایلس ویلز کو خط لکھا ہے جس کشمیر کی صورتِ حال پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے۔
بریڈ شرمین نے 22 اکتوبر کو امور خارجہ کی سب کمیٹی برائے جنوبی ایشیا کی سماعت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اس اجلاس کی سفارشات پر تاحال عملدرآمد نہیں ہو سکا۔
بریڈ کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت کی جانب سے امریکی سفارت کاروں یا غیر جانبدار مبصرین کو جموں و کشمیر کا دورہ کرانے سے مسلسل انکار پر باز پرس ہونی چاہیے۔
SEE ALSO: امریکی کانگریس کا انتخاب جیتنے والی دو مسلمان خواتین کون ہیں؟امریکی رکن کانگریس نے اپنے خط میں مختلف سوالات اٹھائے ہیں۔ جن میں پوچھا گیا ہے کہ پانچ اگست کے اقدامات کے بعد کتنی دفعہ امریکہ نے جموں و کشمیر میں اپنے سفارتکار بھجوانے کی بھارت سے درخواست کی۔
یہ بھی بتایا جائے کہ بھارتی حکومت امریکہ کو سفارتی رسائی نہ دینے کا کیا عذر پیش کرتی رہی ہے۔ بریڈ شرمین نے یہ بھی اعتراض اٹھایا ہے کہ اگر سیکیورٹی وجوہات کی بناء پر امریکہ کو کشمیر تک سفارتی رسائی نہیں دی گئی تو پھر یورپی یونین کے ایک وفد نے جموں و کشمیر کا دورہ کیسے کر لیا؟
بریڈ شرمین نے خط میں اپنا مطالبہ دہراتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی حکومت بھارتی حکومت پر زور دے کہ وہ امریکی سفارت کاروں کو کشمیر کے دورے کی اجازت دیں۔