عراق میں حکومت کے خلاف سراپا احتجاج مظاہرین، حالیہ امریکہ ایران کشیدگی کے باعث احتجاج کی رفتار سست پڑنے پر تشویش میں مبتلا ہیں۔
احتجاجی مظاہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ حالیہ تنازع کے باعث ان کی احتجاجی تحریک کمزور پڑ رہی ہے اور حکومت اُن کے بنیادی مطالبات پورے کرنے سے بھی کترا رہی ہے۔
بغداد میں احتجاجی سرگرمیوں کا بڑا مرکز سمجھے جانے والے التحریر اسکوائر میں موجود کارکن نور نے خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' کو بتایا کہ ہمیں امریکیوں یا ایرانیوں سے کوئی لینا دینا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ حالیہ کشیدگی کے باعث ہماری حکومت کی توجہ اُن معاملات کی طرف ہے جن سے ہمیں کوئی دلچسپی نہیں۔
نور کا کہنا تھا کہ اس سب کے باوجود وہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ پرُامن انداز میں اپنے مطالبات منوانے کے لیے احتجاج جاری رکھے ہوئے ہیں۔
خیال رہے کہ عراق میں گزشتہ برس اکتوبر سے حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔ مظاہرین بے روزگاری، بدامنی، بجلی کی بندش اور کرپشن کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔
مظاہرین اور سیکیورٹی فورسز کے درمیان مختلف مقامات پر جھڑپوں کے دوران لگ بھگ 500 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
پُرتشدد مظاہروں کے باعث عراقی وزیرِ اعظم عادل عبدالمہدی نے بھی مستعفی ہونے کی بھی پیش کش کی تھی۔
مظاہرین کے بقول، امریکہ اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی نے صورتِ حال یکسر بدل دی ہے اور یہ دونوں ملک اپنی لڑائی عراق میں لڑ رہے ہیں۔
ایک احتجاجی کارکن زید نے بتایا کہ ہر کوئی امریکہ اور ایران کے معاملے میں مصروف ہے جب کہ ہم اب دہشت گردوں کا آسان ہدف بن گئے ہیں۔ کیوں کہ اب کوئی بھی اُن کی طرف توجہ نہیں دے رہا۔
خیال رہے کہ دولتِ اسلامیہ (داعش) کے خاتمے کے لیے امریکہ اور ایران نواز ملیشیا عراق میں سرگرم تھے۔ تاہم ایرانی میجر جنرل قاسم سلیمانی کی امریکی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد حالات نے نیا رُخ اختیار کر لیا ہے۔
احتجاجی مظاہرین کا یہ بھی مطالبہ رہا ہے کہ عراق کے معاملات میں امریکہ اور ایران کا اثر و رُسوخ کم کیا جائے۔
اب مظاہرین کو یہ بھی خدشہ ہے کہ کشیدگی کم ہونے پر ایران نواز عسکری گروپ عراقی ناقدین کے خلاف انتقامی کارروائیاں کریں گے۔
ماہرین کے مطابق جمعے کو ہونے والے احتجاجی مظاہرے میں لوگوں کی تعداد توقعات سے کم تھی۔ مظاہرین کی تشویش میں اُس وقت مزید اضافہ ہوا جب ان مظاہروں کی کوریج کرنے والے دو صحافی بصرہ پولیس اسٹیشن کے قریب گاڑی میں مردہ پائے گئے۔
یارک یونیورسٹی ٹورنٹو کی محقق ربا علی حسین کے بقول مظاہرین اب پہلے سے زیادہ خوفزدہ ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ تین ماہ سے زائد عرصے تک یہ مظاہرے بہت منظم اور پرُجوش تھے۔ لوگ اب بھی یہ چاہتے ہیں کہ مظاہروں کو طول دیں لیکن اب اس میں خوف کا پہلو شامل ہو گیا ہے۔
میجر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد جنوبی شہر ناصریہ میں اُن کے علامتی جنازے کے جلوس میں شامل نہ ہونے پر بھی تنازع ہوا۔ جلوس نکالنے سے انکاری مظاہرین پر ایران نواز ملیشیا کی فائرنگ سے ایک شخص ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے۔
جواب میں مظاہرین نے عراقی سیکیورٹی فورس کا حصہ اور مختلف ملیشیا گروپس کی قیادت کرنے والی پاپولر موبیلائزیشن فورس کے ہیڈکوارٹر کو بھی آگ لگا دی تھی۔
ایک احتجاجی کارکن علی کا کہنا تھا کہ سیاسی جماعتیں، مظاہرین کے درمیان اختلافات کا فائدہ اُٹھا رہی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ناصریہ میں پیش آنے والے واقعے سے حکومت مخالف تحریک کو نقصان پہنچا ہے۔
امریکہ کی جانب سے تین جنوری کو ایران کی پاسدران انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ میجر جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد خطے میں کشیدگی بڑھ گئی تھی۔
ایران نے بھی جوابی حملہ کرتے ہوئے عراق میں موجود امریکی تنصیبات کو نشانہ بنایا تھا۔
امریکہ کے 2003 میں عراق پر حملے اور سابق صدر صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے کئی سال گزر جانے کے باوجود بھی حالات معمول پر نہیں آ سکے ہیں۔
خانہ جنگی اور فرقہ ورانہ واقعات اور داعش کی کارروائیوں کے باعث ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
تیل کی دولت سے مالا مال ملک ہونے کے باوجود عراق میں سالہا سال سے عدم تحفظ، بے روزگاری کے باعث عراقی عوام نے گزشتہ سال احتجاج کا سلسلہ شروع کیا تھا۔