وائٹ ہاؤس نے اعلان کیاہے کہ روس کے صدر ولادی میر پوٹن اور امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان دوسری باضابطہ ملاقات کے لیے بات چیت جاری ہے اور امکان ہے کہ اب کی بار یہ ملاقات واشنگٹن ڈی سی میں ہوگی۔
جمعرات کو اپنے ایک ٹوئٹ میں وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ ہکابی سینڈرز نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کو صدر ولادی میر پوٹن کو واشنگٹن ڈی سی کے دورے کی دعوت پہنچانے کی ذمہ داری سونپی ہے۔
ترجمان نے اپنی ٹوئٹ میں مزید کہا ہے کہ یہ ملاقات رواں سال موسمِ خزاں میں ہوگی جس کی تفصیلات طے کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت جاری ہے۔
صدر پوٹن اور صدر ٹرمپ کے درمیان ایک اور ملاقات کی خبر دونوں صدور کے درمیان فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلسنکی میں ہونے والی پہلی باضابطہ سربراہی ملاقات کے صرف تین دن بعد سامنے آئی ہے۔
In Helsinki, @POTUS agreed to ongoing working level dialogue between the two security council staffs. President Trump asked @Ambjohnbolton to invite President Putin to Washington in the fall and those discussions are already underway.
— Sarah Sanders (@PressSec) July 19, 2018
پیر کو ہونےو الی اس ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ کے موقف پر امریکہ میں کڑی تنقید کی جارہی ہے کیوں کہ اس پریس کانفرنس کے دوران صدر ٹرمپ نے 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت سے متعلق امریکی انٹیلی جنس کے دعووں کو مسترد کردیا تھا۔
اپنے اس بیان پر کڑی تنقید کے بعد صدر ٹرمپ عملاً اس بیان سے پلٹ گئے تھے اور انہوں نے منگل کو کہا تھا کہ وہ صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت سے متعلق امریکی انٹیلی جنس اداروں کی رائے سے متفق ہیں۔
تاہم صدر ٹرمپ کی اس وضاحت کے باوجود روس سے متعلق ان کے موقف پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے اور امکان ہے کہ اس تنازع کے دوران صدر ولادی میر پوٹن کو امریکہ کے دورے کی دعوت دینے کے فیصلے کے بعد ا س تنقید میں مزید شدت آئے گی۔
The Summit with Russia was a great success, except with the real enemy of the people, the Fake News Media. I look forward to our second meeting so that we can start implementing some of the many things discussed, including stopping terrorism, security for Israel, nuclear........
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) July 19, 2018
....proliferation, cyber attacks, trade, Ukraine, Middle East peace, North Korea and more. There are many answers, some easy and some hard, to these problems...but they can ALL be solved!
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) July 19, 2018
اس معاملے میں صدر ٹرمپ پر تنقید کرنے والوں میں ڈیموکریٹس کے علاوہ ری پبلکن ارکانِ کانگریس بھی پیش پیش ہیں جب کہ کئی اعلیٰ سطحی سابق انٹیلی جنس اور فوجی حکام اور سابق سفارت کاروں نے بھی ان پر کڑی تنقید کی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے صدر پوٹن کو امریکہ کے دورے کی دعوت دینے کے اعلان سے چند گھنٹے قبل صدر ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں روسی صدر سے ہیلسنکی میں ہونے والی اپنی ملاقات کو انتہائی کامیاب قرار دیا تھا۔
صدر نے اپنے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ وہ صدر پوٹن سے دوسری ملاقات کے منتظر ہیں تاکہ "ہم ان بہت سے معاملات پر عمل درآمد کرسکیں جن پر ہم نے گفتگو کی تھی۔"
صدر نے اپنے ٹوئٹ میں وہ معاملات بھی گنوائے ہیں جن پر ان کے بقول انہوں نے روسی صدر کے ساتھ بات کی تھی۔ ان معاملات میں صدر ٹرمپ کے بقول "انسدادِ دہشت گردی، اسرائیل کی سلامتی، جوہری ہتھیاروں کا پھیلاؤ روکنا، سائبر حملے، تجارت، یوکرائن، مشرقِ وسطیٰ میں امن، شمالی کوریا اور بہت کچھ" شامل تھے۔
The Fake News Media wants so badly to see a major confrontation with Russia, even a confrontation that could lead to war. They are pushing so recklessly hard and hate the fact that I’ll probably have a good relationship with Putin. We are doing MUCH better than any other country!
— Donald J. Trump (@realDonaldTrump) July 19, 2018
صدر نے اپنے ٹوئٹ میں مزید کہا تھا کہ ان مسائل کے حل کے بہت سے راستے ہیں جن میں سے کچھ آسان ہیں اور کچھ مشکل۔ لیکن ان کے بقول یہ تمام معاملات حل ہوسکتے ہیں۔
اس سے قبل جمعرات کی صبح اپنے ایک دوسرے ٹوئٹ میں صدر ٹرمپ نے امریکی ذرائع ابلاغ پر الزام لگایا تھا کہ وہ امریکہ اور روس کے درمیان محاذ آرائی چاہتے ہیں۔
صدر نے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ 'فیک نیوز میڈیا' اس حد تک محاذ آرائی کا خواہش مند ہے کہ جس کے نتیجے میں جنگ چھڑ جائے۔
اپنے ٹوئٹ میں صدر نے کہا تھا کہ امریکی میڈیا اس لیے اتنا شور مچا رہا ہے کیوں کہ اسے لگتا ہے کہ ان کے (صدر ٹرمپ کے) پوٹن کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہوجائیں گے۔