وائٹ ہاؤس نے اعلان کیاہے کہ روس کے صدر ولادی میر پوٹن اور امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان دوسری باضابطہ ملاقات کے لیے بات چیت جاری ہے اور امکان ہے کہ اب کی بار یہ ملاقات واشنگٹن ڈی سی میں ہوگی۔
جمعرات کو اپنے ایک ٹوئٹ میں وائٹ ہاؤس کی ترجمان سارہ ہکابی سینڈرز نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنے قومی سلامتی کے مشیر جان بولٹن کو صدر ولادی میر پوٹن کو واشنگٹن ڈی سی کے دورے کی دعوت پہنچانے کی ذمہ داری سونپی ہے۔
ترجمان نے اپنی ٹوئٹ میں مزید کہا ہے کہ یہ ملاقات رواں سال موسمِ خزاں میں ہوگی جس کی تفصیلات طے کرنے کے لیے دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت جاری ہے۔
صدر پوٹن اور صدر ٹرمپ کے درمیان ایک اور ملاقات کی خبر دونوں صدور کے درمیان فن لینڈ کے دارالحکومت ہیلسنکی میں ہونے والی پہلی باضابطہ سربراہی ملاقات کے صرف تین دن بعد سامنے آئی ہے۔
پیر کو ہونےو الی اس ملاقات کے بعد مشترکہ پریس کانفرنس میں صدر ٹرمپ کے موقف پر امریکہ میں کڑی تنقید کی جارہی ہے کیوں کہ اس پریس کانفرنس کے دوران صدر ٹرمپ نے 2016ء کے امریکی صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت سے متعلق امریکی انٹیلی جنس کے دعووں کو مسترد کردیا تھا۔
اپنے اس بیان پر کڑی تنقید کے بعد صدر ٹرمپ عملاً اس بیان سے پلٹ گئے تھے اور انہوں نے منگل کو کہا تھا کہ وہ صدارتی انتخابات میں روسی مداخلت سے متعلق امریکی انٹیلی جنس اداروں کی رائے سے متفق ہیں۔
تاہم صدر ٹرمپ کی اس وضاحت کے باوجود روس سے متعلق ان کے موقف پر تنقید کا سلسلہ جاری ہے اور امکان ہے کہ اس تنازع کے دوران صدر ولادی میر پوٹن کو امریکہ کے دورے کی دعوت دینے کے فیصلے کے بعد ا س تنقید میں مزید شدت آئے گی۔
اس معاملے میں صدر ٹرمپ پر تنقید کرنے والوں میں ڈیموکریٹس کے علاوہ ری پبلکن ارکانِ کانگریس بھی پیش پیش ہیں جب کہ کئی اعلیٰ سطحی سابق انٹیلی جنس اور فوجی حکام اور سابق سفارت کاروں نے بھی ان پر کڑی تنقید کی ہے۔
وائٹ ہاؤس کی جانب سے صدر پوٹن کو امریکہ کے دورے کی دعوت دینے کے اعلان سے چند گھنٹے قبل صدر ٹرمپ نے اپنے ایک ٹوئٹ میں روسی صدر سے ہیلسنکی میں ہونے والی اپنی ملاقات کو انتہائی کامیاب قرار دیا تھا۔
صدر نے اپنے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ وہ صدر پوٹن سے دوسری ملاقات کے منتظر ہیں تاکہ "ہم ان بہت سے معاملات پر عمل درآمد کرسکیں جن پر ہم نے گفتگو کی تھی۔"
صدر نے اپنے ٹوئٹ میں وہ معاملات بھی گنوائے ہیں جن پر ان کے بقول انہوں نے روسی صدر کے ساتھ بات کی تھی۔ ان معاملات میں صدر ٹرمپ کے بقول "انسدادِ دہشت گردی، اسرائیل کی سلامتی، جوہری ہتھیاروں کا پھیلاؤ روکنا، سائبر حملے، تجارت، یوکرائن، مشرقِ وسطیٰ میں امن، شمالی کوریا اور بہت کچھ" شامل تھے۔
صدر نے اپنے ٹوئٹ میں مزید کہا تھا کہ ان مسائل کے حل کے بہت سے راستے ہیں جن میں سے کچھ آسان ہیں اور کچھ مشکل۔ لیکن ان کے بقول یہ تمام معاملات حل ہوسکتے ہیں۔
اس سے قبل جمعرات کی صبح اپنے ایک دوسرے ٹوئٹ میں صدر ٹرمپ نے امریکی ذرائع ابلاغ پر الزام لگایا تھا کہ وہ امریکہ اور روس کے درمیان محاذ آرائی چاہتے ہیں۔
صدر نے ٹوئٹ میں کہا تھا کہ 'فیک نیوز میڈیا' اس حد تک محاذ آرائی کا خواہش مند ہے کہ جس کے نتیجے میں جنگ چھڑ جائے۔
اپنے ٹوئٹ میں صدر نے کہا تھا کہ امریکی میڈیا اس لیے اتنا شور مچا رہا ہے کیوں کہ اسے لگتا ہے کہ ان کے (صدر ٹرمپ کے) پوٹن کے ساتھ اچھے تعلقات قائم ہوجائیں گے۔