افغانستان کے شمالی شہر قندوز میں بمباری کی زد میں آنے والے اسپتال کی منتظم بین الاقوامی طبی امدادی تنظیم "ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز" نے یہاں سے اپنی سرگرمیاں ختم کرنے کا اعلان کیا ہے جب کہ امریکہ کا کہنا ہے کہ فضائی کارروائی سے پیش آنے والے واقعے کی مکمل تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
ہفتہ کو قندوز میں یہ اسپتال اس وقت بمباری کی زد میں آیا جب علاقے میں بین الاقوامی فورسز نے دہشت گردوں کے خلاف فضائی کارروائی کی تھی۔ بمباری سے اسپتال میں موجود 19 افراد ہلاک ہو گئے تھے جن میں طبی عملے کے 12 ارکان بھی شامل ہیں۔
اتوار کو تنظیم نے ایک بیان میں کہا کہ "تشویشناک حالت والے تمام مریضوں کو دیگر طبی مراکز میں منتقل کر دیا گیا ہے اور ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کا کوئی بھی رکن یہاں کام نہیں کر رہا۔
امریکہ کے صدر براک اوباما نے افغانستان کے شہر قندوز میں فضائی کارروائی میں طبی عملے اور شہریوں کے ہلاک و زخمی ہونے کے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا ہے جب کہ امریکی وزیر دفاع ایشٹن کارٹر کے مطابق افغان حکومت کے ساتھ مل کر اس کی مکمل تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
افغانستان میں معاونت کے لیے موجود امریکی فوج کا کہنا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ اس فضائی کارروائی سے علاقے میں موجود اسپتال کو بھی نقصان پہنچا ہو۔
افغانستان میں امریکی افواج کے کمانڈر جنرل جان ایف کیمبل نے ایک بیان میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ "واقعے کا تفصیلی جائزہ لے کر تعین کیا جائے گا کہ دراصل ہوا کیا تھا۔" ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں موجود امریکی فورسز اپنے افغان شراکت داروں کو "مشاورت اور اعانت فراہم کرتے رہیں گے، جیسا کہ قندوز اور اس کے گرد و نواح کے علاقوں کو عسکریت پسندوں سے پاک کرنے کے لیے فراہم کی گئی۔
افغانستان کے صدر اشرف غنی نے کابل سے جاری ایک بیان میں شہریوں کی ہلاکت پر "گہرے افسوس" کا اظہار کیا۔ بیان کے مطابق جنرل کیمبل نے صدر غنی کو فون کر کے واقعے کی تفصیلات فراہم کی ہیں۔
جنگ سے تباہ حال اس ملک میں موجود انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ اس کی نظر میں "کسی بھی طبی سہولت یا اس کے لیے کام کرنے والوں کو نشانہ بنانا ناقابل قبول ہے چاہے حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں۔"
ادھر اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے بھی اس کی شدید مذمت کی ہے اور عالمی تنظیم کے دفتر برائے انسانی حقوق کے سربراہ زید رعد الحسین نے فضائی کارروائی کو "بلا جواز" قرار دیا۔
زید کا کہنا تھا کہ "بین الاقوامی اور افغان فوجی منصوبہ ساز ہر قسم کے حالات میں شہریوں کی حفاظت کے پابند ہیں اور طبی سہولت اور عملہ اس ضمن میں خاص تحفظ کے حامل ہیں۔"
ان کے بقول اگر عدالت میں یہ ثابت ہو جائے کہ اسپتال پر فضائی کارروائی دانستہ ہے تو یہ جنگی جرم کے زمرے میں آ سکتی ہے۔
ہفتہ کو افغان وزارت داخلہ کے ترجمان نے کہا تھا کہ کارروائی کے وقت اسپتال میں 10 سے 15 مشتبہ دہشت گرد چھپے ہوئے تھے جو کہ تمام اس حملے میں مارے گئے اور اس میں کچھ ڈاکٹرز بھی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
لیکن طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ ان کا کوئی جنگجو اسپتال میں موجود نہیں تھا۔
امدادی تنظیم نے بھی اس بات کو رد کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسپتال میں صرف مریض، ان کے تیماردار اور طبی عملے کے لوگ موجود تھے۔
اوائل ہفتہ طالبان جنگجوؤں نے قندوز پر قبضہ کر لیا تھا لیکن بعد میں افغان فورسز کی تازہ کمک جسے نیٹو فوجیوں کی مدد حاصل تھی شہر کے بیشتر حصوں سے طالبان جنگجوؤں کو باہر نکالنے میں کامیاب ہو گئی تھی۔