امریکی انٹیلی جنس اہلکار ’داعش‘ کے خطرے کے بارے میں محتاط

ابو ابراہیم الامریکی نے دھمکی آمیز پیغام میں لکھا کہ ’’ہمارے پاس 15 مختلف ریاستوں میں 71 تربیت یافتہ سپاہی ہیں جو ہمارے کہنے پر کسی بھی ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے تیار ہیں۔‘‘

امریکی انٹیلی جنس اہلکار عراق اور شام میں سرگرم شدت پسند تنظیم ’داعش‘ کے ایک مبینہ امریکی رکن کی جانب سے ایک نئی اور بے باک دھمکی کا جائزہ لے رہے ہیں، تاہم ابھی تک اس کے سچ ہونے کے بارے میں کوئی شواہد موجود نہیں۔

اس دھمکی کو انٹرنیٹ پر ایک بلاگ ’جسٹ پیسٹ اٹ‘ پر شائع کیا گیا تھا۔ اس میں کہا گیا تھا کہ ریاست ٹیکساس کے شہر گارلینڈ میں ہونے والا حملہ ’’صرف ایک ابتدا ہے۔‘‘

ابو ابراہیم الامریکی نے دھمکی آمیز پیغام میں لکھا کہ ’’ہمارے پاس 15 مختلف ریاستوں میں 71 تربیت یافتہ سپاہی ہیں جو ہمارے کہنے پر کسی بھی ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے تیار ہیں۔‘‘ ابو ابراہیم امریکہ میں پیدا ہوا اور خیال ہے کہ وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں فعال ہے۔ پیغام میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ ’’اگلے چھ ماہ دلچسپ ہوں گے۔‘‘

ابو ابراہیم نے لکھا تھا کہ گارلینڈ میں حملے کا ہدف ’امریکن فریڈم ڈیفنس انیشیٹو‘ کی شریک بانی پیم گیلر تھیں۔ اس تنظیم نے حملے کے مقام پر پیغمبرِ اسلام کے خاکوں کے مقابلے کا اہتمام کیا تھا۔

پولیس نے گارلینڈ کے حملہ آوروں کی شناخت 31 سالہ ایلٹن سمپسن اور 34 سالہ نادر صوفی کے طور پر کی۔ ان دونوں نے زرہ پہن رکھی تھی اور گولی چلا کر ایک سکیورٹی محافظ کو زخمی کرنے میں کامیاب ہو گئے تھے، مگر موقع پر موجود پولیس افسر نے انہیں گولی مار کر ہلاک کر دیا۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے بدھ کو کہا تھا کہ ابھی تک کوئی شواہد نہیں ملے جس سے یہ ظاہر ہو کہ ان دونوں نے یہ کارروائی داعش کے حکم پر کی۔

امریکی انٹیلی جنس اہلکاروں نے کہا ہے کہ وہ الامریکی کی جانب سے اس نئی دھمکی کو سنجیدگی سے لے رہے ہیں، مگر ان کے بقول یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ ایسی دھمکیوں کو انٹرنیٹ پر لگایا جا رہا ہے۔

ایک انٹیلی جنس اہلکار نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’ہماری توقع ہے کہ داعش اور اس کے حامی دنیا بھر میں دہشت پھیلانے اور تنہا حملہ آوروں کی جانب سے کیے جانے والے حملوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے۔ ہمیں مغرب میں رہنے والے ان لوگوں کے بارے میں تشویش ہے جو داعش کے پراپیگنڈے سے متاثر ہو کر خود ہی کوئی پرتشدد اقدام اٹھا لیں۔‘‘