عدم استحکام داعش کے خلاف کامیابی کو صفر بنا سکتا ہے: امریکی اہلکار

فائل

’ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جینس‘ کے دفتر کے اہل کار، ڈیوڈ کیٹلر نے منگل کے روز واشنگٹن میں قائم ’انسٹی ٹیوٹ فور نیئر ایسٹ پالیسی‘ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’مستقبل قریب میں، میں شام اور عراق میں حاصل ہونے والی کامیابی کو ہاتھوں سے جاتا ہوا دیکھتا ہوں‘‘

امریکی قیادت میں داعش کے خلاف لڑنے والا اتحاد عراق اور شام میں خودساختہ دولت اسلامیہ کے دہشت گرد گروپ کا صفایا کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے۔ لیکن، امریکی انٹیلی جینس کے ایک اہل کار نے منگل کے روز خبردار کیا کہ وہاں موجود عدم استحکام آسانی کے ساتھ اس کامیابی کو صفر بنا سکتا ہے۔

’ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جینس‘ کے دفتر کے اہل کار، ڈیوڈ کیٹلر نے منگل کے روز واشنگٹن میں قائم ’انسٹی ٹیوٹ فور نیئر ایسٹ پالیسی‘ سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’مستقبل قریب میں، میں شام اور عراق میں حاصل ہونے والی کامیابی کو ہاتھوں سے جاتا ہوا دیکھتا ہوں‘‘۔

بقول اُن کے، ’’ابھی بہت سا کام ہے جسے کرنے کی ضرورت باقی ہے‘‘۔

اتحاد نے عراق اور شام کی تین سالہ لڑائی کے دوران، داعش کے دہشت گرد گروپ کے ہزاروں عسکریت پسند ہلاک کیے، جب کہ گروپ نے 98 فی صد سے زیادہ علاقہ کھو دیا ہے۔

گذشتہ برس، گروپ کو شام میں رقہ کے خودساختہ دارالحکومت سے نکال باہر کیا گیا، جب کہ اُسے عراق میں شکست ہو چکی ہے۔

اب اتحاد ’سیرئن ڈیموکریٹک فورسز‘ کی مدد کر رہا ہے، تاکہ عراقی سرحد کے قریب مشرقی شام میں داعش کے باقی ماندہ لڑاکوں کا صفایا کیا جاسکے۔

داعش کا عالمی نظریہ

کیٹلر نے کہا ہے کہ داعش کا نظریہ یہی ہے کہ وہ عالمی سطح پر سرخرو ہو، ایسے میں جب اپس کی جانب سے خطے میں اپنے نقصان کی تلافی کی کوشش جاری ہیں۔

اُنھوں نے خبردار کیا کہ میدان جنگ کی بڑھتی ہوئی پیچیدگی، جہاں اتحادی اور دشمن اثر و رسوخ کے لیے مقابلہ آرائی میں مصروف ہیں، شام میں ہونے والی کامیابی کو خطرات درپیش ہیں۔

کیٹلر نے کہا کہ ’’امریکہ، ایران، حزب اللہ اور روس سارے داعش کے خلاف صف آرا ہیں۔ ہم بھی اپنے مخالفین کے ساتھ یکساں دشمن سے لڑ رہے ہیں۔ اس طرح، سارے ہی ’امن کے فوائد‘‘ سے مستفید ہو سکیں گے‘‘۔

اُنھوں نے مزید کہا کہ دریں اثنا، ترکی اور کرد، جو دونوں ہی امریکہ کے اتحادی ہیں، ایک دوسرے کے خلاف ہو چکے ہیں۔ اس لیے اُن کا دھیان داعش سے ہٹ چکا ہے۔

سنی شیعہ سوچ

اُنھوں نے کہا کہ عراق میں بڑھتے ہوئے عدم استحکام کے نتیجے میں کامیابی کو خدشات لاحق ہیں، جہاں تعمیر نو تک کے سلسلے میں نا اتفاقی ہے، جب کہ سنی مکینوں اور شیعہ اکثریت والی مرکزی حکومت کے مابین اعتماد کی کمی ہے۔