ریاست کیلے فورنیا نے حال ہی میں ایک قانون منظور کیا ہے جس کے تحت ایسے طالب علموں کو مالی امداد مل سکتی ہے جو غیر قانونی تارکینِ وطن ہیں۔
’’میں جالسکو، میکسیکو میں پیدا ہوئی تھی۔ میں جب امریکہ آئی تو میری عمر دو برس تھی۔‘‘
یہ نینسی میزا کی آواز ہے۔ ان کی کہانی بڑی عام سی ہے ۔ ان کی ماں انہیں تعلیم کے لیے امریکہ لائی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ’’میں اور میری امی ریگستان کے راستے ہو کر یہاں آئے۔ ہمارے پاس داخلے کے لیے قانونی کاغذات نہیں تھے۔ میں خود کو بالکل امریکی سمجھتی ہوں۔ بات بس اتنی ہے کہ میرے پاس ایک کاغذ نہیں ہے۔‘‘
میزا نے حال ہی میں یونیورسٹی سے گریجویشن کیا ہے، اور اب وہ سوچ رہی ہیں کہ مزید اسی شعبے میں اعلیٰ تعلیم حاصل کریں یا قانون کی تعلیم کے لیے یونیورسٹی میں داخلہ لیں۔ چند مہینے پہلے ان کے منصوبے کچھ آسان ہو گئے جب کیلے فورنیا نے ڈریم ایکٹ نامی قانون منظور کر لیا۔ اس قانون کے تحت ایسے طالب علم جو امریکہ میں قانونی طور پر داخل نہیں ہوئے تھے، ریاست کی سرکاری یونیورسٹیوں میں تعلیم کے لیے مالی امداد کے اہل ہیں۔ میزا کا کہنا ہے کہ ’’کیلے فورنیا میں ڈریم ایکٹ کی منظوری سے ہم لوگوں کے لیے تعلیم کے شعبے میں مقابلے کے دروازے کھل گئے ہیں۔ ہم ہمیشہ سے یہ موقع حاصل کرنا چاہتے تھے۔‘‘
یونیورسٹی آف کیلے فورنیا کے لاس انجیلیس لیبر سینٹر کے ڈائریکٹر، کینٹ وانگ کہتے ہیں کہ امریکہ میں اندازاً ایک کروڑ دس لاکھ غیر قانونی تارکین وطن رہتے ہیں۔ ان میں سے بیس لاکھ نوجوان ہیں اور طالب علم ہیں۔ امریکہ کی صرف تین ریاستوں میں غیر قانونی تارکینِ وطن سرکاری یونیورسٹیوں میں مالی امداد کے مستحق ہیں۔کینٹ وانگ کے مطابق ’’ان بچوں نے کوئی قانون نہیں توڑا ہے۔ انھوں نے ہر وہ کام کیا ہے جس کا مطالبہ ہمارے معاشرے نے ان سے کیا ہے۔ انھوں نے سخت محنت کی ہے۔ انھوں نے دل لگا کر پڑھا ہے۔ وہ باقاعدگی سے اسکول جاتے رہے ہیں۔ اب وہ کالج میں داخل ہو رہے ہیں، اور اب ہم انہیں ایسی چیز کی سزا دے رہے ہیں جس پر ان کا مطلق کوئی کنٹرول نہیں تھا۔‘‘
گزشتہ سال سینیٹ میں ایک وفاقی ڈریم ایکٹ منظور نہیں ہو سکا۔ اس قانون کے ذریعے بعض اہل غیر قانونی تارکین وطن کے لیے شہریت کی راہ کھل جاتی۔ کینٹ وانگ کا کہنا ہے کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ چونکہ ان لوگوں کی اکثریت کا تعلق لاطینی امریکہ اور ایشیا سے ہے، اس لیے امریکی کانگریس کے پرانے قدامت پسند سفید فام ارکان کی طرف سے ان کی سخت مخالفت ہو رہی ہے۔ ان سفید فام ارکانِ کانگریس کو اندیشہ ہے کہ یہ طالب علم ہمارے معاشرے کے اندر گُھل مِل جائیں گے۔‘‘
لیکن ریپبلیکن اسٹریٹجسٹ ، لوئس الواراڈو کہتے ہیں کہ بہت سے ڈیموکریٹس اور ریپبلیکنز کے خیالات میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بہت سے ریپبلیکنز اور لاطینوز بھی یہی چاہتے ہیں کہ امیگریشن میں اصلاحات ملک گیر سطح پر ہوں، کیوں کہ کیلے فورنیا جیسی ریاستیں اپنی الگ امیگریشن پالیسی کی متحمل نہیں ہو سکتیں۔ انھوں نے کہا کہ ’’آپ صرف اتنا کریں کہ لاس انجیلیس کاؤنٹی کے ہسپتالوں کے امرجینسی روم میں جائیں۔ آپ کو پتہ چل جائے گا کہ وہاں کی سہولتوں سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پورے معاشرے کو اس کا بوجھ برداشت کرنا پڑ رہا ہے کیوں یہ مسئلہ طے نہیں کیا گیا ہے۔ اس مسئلے کا حل بہت پیچیدہ ہے؛ حقیقت یہ ہے کہ اس کا کوئی حل نہیں مل سکتا جب تک کہ ہمیں یہ پتہ نہ چل جائے کہ امریکہ کا اگلا صدر کون ہو گا۔‘‘
ریپبلیکن اُمیداروں کے درمیان بھی، جو 2012ء میں صدر اوباما کے خلاف انتخاب لڑنا چاہتے ہیں، اختلافِ رائے موجود ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ امریکہ اور میکسیکو کی سرحد پر خاردار تاروں کی باڑھ لگا دی جائے، جب کہ کچھ دوسرے لوگ چاہتے ہیں کہ جو غیر قانونی تارکینِ وطن پہلے سے امریکہ میں موجود ہیں، انہیں قانونی حیثیت دینے کے لیے ہمیں کوئی طریقہ معلوم کرنا چاہیئے۔لوئس الواراڈو کہتے ہیں کہ ریپبلیکنز اور ڈیموکریٹس کو اس مسئلے کے حل کے لیے مل جل کر کام کرنا چاہیئے اور امیگریشن کے مسئلے کا حل معلوم کرنے میں مزید تاخیر نہیں کرنی چاہئیے۔