امریکہ: چینی حکام پر پابندی سے متعلق 'ایغور ایکٹ' منظور، چین کا احتجاج

(فائل فوٹو)

امریکی ایوانِ نمائندگان نے کثرت رائے سے 'ایغور ایکٹ' منظور کیا ہے جس کے تحت چین کے اعلیٰ عہدے داروں پر پابندیاں عائد کیے جانے کا امکان ہے۔ بل کی منظوری پر چین نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ "اس کی قیمت چکانی ہو گی۔"

خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق، امریکی ایوان نمائندگان نے منگل کو ایغور ایکٹ برائے 2019 کثرت رائے سے منظور کیا۔ بل کی حمایت میں 407 ووٹ ڈالے گئے جب کہ صرف ایک رکن نے بل کی مخالفت کی۔

ایغور ایکٹ چین کے صوبے سنکیانگ میں جاری ایغور اقلیتوں کے خلاف کریک ڈاؤن سے متعلق ہے اور اس میں بیجنگ کی جانب سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی مذمت کی گئی ہے۔

ایغور ایکٹ میں چینی حکومت کی جانب سے ایغور اقلیت کی بڑی تعداد کو حراست میں رکھنے کی مذمت کی گئی ہے اور "ری ایجوکیشن" کیمپس بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

SEE ALSO: ایغور مسلماںوں سے 'بدسلوکی': امریکہ نے چین کی 28 کمپنیاں بلیک لسٹ کر دیں

خیال رہے کہ امریکہ اور بعض انسانی حقوق کی تنظیموں کا خیال ہے کہ چین نے لگ بھگ 10 لاکھ ایغور افراد کو حراستی مراکز میں قید کیا ہوا ہے جن میں سے اکثریت مسلمانوں کی ہے۔

چین ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔ بیجنگ کا مؤقف ہے کہ انہوں نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے "ری ایجوکیشن" سینٹرز قائم کیے ہیں جہاں مقامی افراد کو پیشہ وارانہ تربیت فراہم کی جاتی ہے۔

ایغور ایکٹ میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر زور دیا گیا ہے کہ وہ چین کے ان اعلیٰ حکام پر پابندیاں نافذ کریں جو ایغور پالیسی میں شامل ہیں۔

منگل کو ایغور ایکٹ پر پر ووٹنگ سے قبل ایوانِ نمائندگان کی اسپیکر نینسی پیلوسی نے کہا کہ چین کے ظالمانہ اقدامات کی وجہ سے آج ایغور آبادی کے انسانی حقوق اور وقار خطرے میں ہے جو دنیا کے اجتماعی غم و غصے کا باعث بن رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین کی جانب سے ایغور اقلیتوں کے خلاف انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر امریکی کانگریس بیجنگ کے خلاف ایک سخت قدم لے رہی ہے۔

SEE ALSO: 'چین ایغور مسلمانوں کی مساجد، مذہبی مقامات کو مسمار کر رہا ہے'

ایغور ایکٹ برائے 2019 کے مطابق، امریکی محکمۂ خارجہ سنکیانگ میں جاری کریک ڈاؤن سے متعلق ایک سال میں اپنی رپورٹ مرتب کرے گا جب کہ محکمۂ تجارت چین کے لیے امریکہ کی ان برآمدات کو بند کرے گا جن کے بارے میں شبہ ہو کہ وہ مسلم اقلیتوں کی نگرانی یا حراست میں استعمال ہو سکتی ہیں۔

دوسری جانب چین نے اس بل کی منظوری پر سخت ردعمل دیتے ہوئے اسے حقائق کے منافی قرار دیا ہے۔

چین کی وزارتِ خارجہ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ بل قانون کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ ساتھ ہی یہ تنبیہ بھی کی گئی ہے کہ تمام غلط اقدامات اور الفاظ کی قیمت چکانی ہوگی۔

چین کے نسلی امور سے متعلق کمیشن کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ "سنکیانگ چین کا سنکیانگ ہے اور ہانگ کانگ چین کا ہانگ کانگ ہے۔"

چین کے خارجی امور سے متعلق کمیشن نے بھی بل پر سخت الفاظ میں تنقید کی اور کہا کہ یہ بل حقائق کے منافی ہے، جس میں سیاہ اور سفید کو ملا دیا گیا ہے۔

کمیشن نے کہا ہے کہ یہ انتہائی افسوسناک بات ہے کہ امریکی کانگریس نے سنکیانگ کی جانب سے دہشت گردی کے خاتمے اور انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے کیے گئے اقدامات پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں اور اسے سنکیانگ میں معاشی ترقی، سماجی استحکام، قومی اتحاد اور مذہبی ہم آہنگی بھی نظر نہیں آ رہی۔

SEE ALSO: چین کے حراستی مراکز: 'لیک' دستاویزات میں مزید معلومات سامنے آگئیں

واضح رہے کہ یہ بل ایسے موقع پر منظور ہوا ہے جب امریکہ اور چین کے درمیان تعلقات کشیدہ ہیں۔ گزشتہ ہفتے صدر ٹرمپ نے ہانگ کانگ کے مظاہرین کی حمایت سے متعلق ایک بل پر دستخط کیے تھے جس کے بعد چین کا سخت ردعمل آیا تھا۔

چین نے ہانگ کانگ میں کام کرنے والی امریکہ کی کچھ غیر سرکاری تنظیموں پر پابندیاں عائد کر دی تھیں۔