امریکی وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ تہران کے ساتھ اس کے متنازع جوہری پروگرام سے متعلق چھ عالمی طاقتوں کے عبوری معاہدے سے ’’ایران کی طرف سے درپیش چیلنجز سے توجہ نہیں ہٹی‘‘ ہے۔
امریکہ کے وزیردفاع چک ہیگل نے کہا ہے کہ ایران کے ساتھ عبوری معاہدے کے باوجود اس کے تقریباً 35 ہزار فوجی مشرق وسطیٰ میں خطے کی سلامتی کے لیے موجود رہیں گے۔
ہفتہ کو بحرین کے دارالحکومت مناما میں منعقدہ سکیورٹی کانفرنس میں خلیج عرب کے رہنماؤں سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں سفارتی مصروفیات کے ساتھ ساتھ خطے میں امریکی بحری بیڑے، جہاز اور اہلکار بھی موجود رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی سفارتکاری کا ’’غلط نتیجہ اخذ‘‘ نہیں کیا جانا چاہیے۔
’’ہم جانتے ہیں کہ سفارتکاری کسی خلا میں نہیں کی جا سکتی، امریکی فوجی قوت اور مشرق وسطیٰ میں ہمارے اتحادیوں کی سلامتی کی مصدقہ یقین دہانی ہماری کامیابی ہے۔‘‘
چک ہیگل نے کہا کہ پینٹاگون ’’ایران کے ساتھ عبوری معاہدے کے تناظر میں خطے میں اپنی افواج یا فوجی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہیں کرے گا۔‘‘
امریکی وزیردفاع کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب واشنگٹن اور اس کے خلیجی اتحادیوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پائی جا رہی ہے۔
خلیجی رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ ایشیا سے متعلق امریکہ کی حکمت عملی میں تبدیلی سے مشرق وسطیٰ پر اس کی توجہ برقرار نہیں رہ سکے گی اور ان کے ہاں شام کی خانہ جنگی سمیت ’’عرب اسپرنگ‘‘ سے متعلق امریکہ کا ردعمل بھی پریشانی کا باعث ہے۔
بحرین میں دو سال قبل سنی مسلمان حکمرانوں کی مدد کے لیے سعودی عرب کی طرف سے فوج بھیجنے کے فیصلے پر بھی امریکہ نے خود کو اس معاملے سے علیحدہ ہی رکھا تھا۔ واشنگٹن شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کی حمایت کے بارے میں محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے۔
مناما میں سکیورٹی کانفرنس سے خطاب میں وزیر دفاع چک ہیگل نے شام سے متعلق امریکی موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک ’’خطے میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اس تنازع کا سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے کام جاری رکھے گا۔‘‘
مسٹر ہیگل کا کہنا تھا کہ تہران کے ساتھ اس کے متنازع جوہری پروگرام سے متعلق چھ عالمی طاقتوں کے عبوری معاہدے سے ’’ایران کی طرف سے درپیش چیلنجز سے توجہ نہیں ہٹی‘‘ ہے۔
’’جوہری ہتھیار رکھنے والا ایران علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے ناقابل قبول خطرات کا باعث ہوگا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے سے ’’بامعنی مذاکرات کے لیے وقت حاصل ہوا ہے نہ کہ دھوکہ دہی کے لیے ‘‘، اور امریکی سفارتکاری کو فوجی عزم اور خطے کے اتحادیوں کا تعاون کی حمایت حاصل رہے گی۔
ہفتہ کو بحرین کے دارالحکومت مناما میں منعقدہ سکیورٹی کانفرنس میں خلیج عرب کے رہنماؤں سے خطاب میں انھوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں سفارتی مصروفیات کے ساتھ ساتھ خطے میں امریکی بحری بیڑے، جہاز اور اہلکار بھی موجود رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ امریکی سفارتکاری کا ’’غلط نتیجہ اخذ‘‘ نہیں کیا جانا چاہیے۔
’’ہم جانتے ہیں کہ سفارتکاری کسی خلا میں نہیں کی جا سکتی، امریکی فوجی قوت اور مشرق وسطیٰ میں ہمارے اتحادیوں کی سلامتی کی مصدقہ یقین دہانی ہماری کامیابی ہے۔‘‘
چک ہیگل نے کہا کہ پینٹاگون ’’ایران کے ساتھ عبوری معاہدے کے تناظر میں خطے میں اپنی افواج یا فوجی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہیں کرے گا۔‘‘
امریکی وزیردفاع کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب واشنگٹن اور اس کے خلیجی اتحادیوں کے درمیان تعلقات میں کشیدگی پائی جا رہی ہے۔
خلیجی رہنماؤں کو خدشہ ہے کہ ایشیا سے متعلق امریکہ کی حکمت عملی میں تبدیلی سے مشرق وسطیٰ پر اس کی توجہ برقرار نہیں رہ سکے گی اور ان کے ہاں شام کی خانہ جنگی سمیت ’’عرب اسپرنگ‘‘ سے متعلق امریکہ کا ردعمل بھی پریشانی کا باعث ہے۔
بحرین میں دو سال قبل سنی مسلمان حکمرانوں کی مدد کے لیے سعودی عرب کی طرف سے فوج بھیجنے کے فیصلے پر بھی امریکہ نے خود کو اس معاملے سے علیحدہ ہی رکھا تھا۔ واشنگٹن شام میں صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کی حمایت کے بارے میں محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے۔
مناما میں سکیورٹی کانفرنس سے خطاب میں وزیر دفاع چک ہیگل نے شام سے متعلق امریکی موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ملک ’’خطے میں اپنے اتحادیوں کے ساتھ مل کر اس تنازع کا سیاسی حل تلاش کرنے کے لیے کام جاری رکھے گا۔‘‘
مسٹر ہیگل کا کہنا تھا کہ تہران کے ساتھ اس کے متنازع جوہری پروگرام سے متعلق چھ عالمی طاقتوں کے عبوری معاہدے سے ’’ایران کی طرف سے درپیش چیلنجز سے توجہ نہیں ہٹی‘‘ ہے۔
’’جوہری ہتھیار رکھنے والا ایران علاقائی اور عالمی سلامتی کے لیے ناقابل قبول خطرات کا باعث ہوگا۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس معاہدے سے ’’بامعنی مذاکرات کے لیے وقت حاصل ہوا ہے نہ کہ دھوکہ دہی کے لیے ‘‘، اور امریکی سفارتکاری کو فوجی عزم اور خطے کے اتحادیوں کا تعاون کی حمایت حاصل رہے گی۔