امریکی فوج کو افغانستان میں چیلنج درپیش رہیں گے: ہیگل

چک ہیگل

سبک دوش ہونے والے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ امریکہ ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ گذشتہ 13 برسوں کے دوران افغانستان کی لڑائی میں حاصل ہونے والی بے انتہا پیش رفت ’ضائع ہوجائے‘

سبک دوش ہونے والے امریکی وزیر دفاع، چک ہیگل نے افغانستان میں باقی ماندہ امریکی فوجیوں سے کہا ہے کہ اُنھیں اب بھی چیلنجوں سے نبردآزما ہونا ہوگا، حالانکہ بہت جلد اُن کا مشن طالبان باغیوں سے لڑنے کے بجائے افغان فوجیوں کی تربیت ہوگا۔


ہیگل، جنھوں نے حال ہی میں استعفیٰ پیش کیا تھا، اتوار کو افغانستان کا آخری دورہ کیا، جہاں اُنھوں نے جلال آباد کے مشرقی شہر کے قریب واقع اڈے پر امریکی فوجیوں کو بتایا کہ ’اُن کا کام ابھی مکمل نہیں ہوا‘۔

اُنھوں نے کہا کہ امریکہ ہرگز یہ نہیں چاہتا کہ گذشتہ 13 برسوں کے دوران، افغانستان میں ہونے والی لڑائی کے دوران حاصل ہونے والی بے انتہا پیش رفت ’ضائع ہوجائے‘۔

امریکہ نے طالبان کی حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے، سنہ 2001میں افغانستان فتح کیا، جس نے القاعدہ کے جنگجوؤں کی پیشت پناہی کر رکھی تھی، جو اس سے ایک ہی ماہ قبل امریکہ پر دہشت گرد حملوں کی ذمہ دار تھی۔

امریکہ اور اُس کے نیٹو ساجھے دار اس سال کے آخر تک افغانستان سے اپنی زیادہ تر افواج کا انخلا کریں گے، جب کہ ملک میں 12500 امریکی فوجی اہل کار باقی رہ جائیں گے، جن کا کام اپنے افغان ساتھیوں کی تربیت ہوگا۔

چار برس قبل، جب ملک میں اُن کی سب سے بڑی نفری موجود تھی، ملک میں نیٹو کے تقریباً 130000 فوجی تعینات تھے۔

ہیگل نے کہا کہ اس بات سے قطع نظر کہ افغانستان اور عراق میں امریکی فوجوں کی کتنی تعداد موجود تھی، دونوں ملکوں کے عوام کو چاہیئے کہ وہ اپنی ذمہ داریاں خود سنبھالیں۔

ہیگل کے بقول، ’یہاں کے برعکس، عراق میں ہماری ذمہ داری مختلف ہے۔ آخرِ کار، ہر ملک کو اپنے مستقبل، اپنے بھلے اور اپنے عوام کی حکمرانی کی ذمہ داری خود سنبھالنی ہوگی‘۔