پاکستان کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں آئی: جنرل نکولسن

جنرل جان نکولسن (فائل فوٹو)

جنرل نکلسن کا کہنا تھا، "ہم ان تبدیلیوں کی امید رکھتے ہیں، ہم سرحد پار کرنے والے دہشت گرد عناصر کے خاتمے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی امید کرتے ہیں۔"

افغانستان میں تعینات بین الاقوامی افواج کے اعلیٰ ترین امریکی کمانڈر جنرل جان نکولسن کا کہنا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے اسلام آباد سے متعلق سخت مؤقف اپنانے کے باوجود انھوں نے دہشت گردوں کی حمایت سے متعلق پاکستان کے رویے میں کوئی تبدیلی نہیں دیکھی ہے۔

امریکہ ایک عرصے سے افغان طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے خلاف سنجیدہ کارروائی نہ کرنے پر پاکستان سے نالاں ہے اور اگست میں افغانستان اور جنوبی ایشیا سے متعلق نئی امریکی پالیسی کا خاکہ بیان کرتے ہوئے صدر ٹرمپ نے پاکستان کی طرف سے افغان عسکریت پسندوں کی مبینہ حمایت پر برہمی کا اظہار کیا تھا۔

انھوں نے پاکستان پر الزام عائد کیا تھا کہ وہ "افراتفری پھیلانے والے عناصر" کو پناہ دیے ہوئے ہے اور ایسے عسکریت پسندوں کو محفوظ آماجگاہیں فراہم کر رہا ہے جو امریکہ کی حمایت یافتہ افغان حکومت کے خلاف جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔

جنرل جان نکولسن نے منگل کو شمال مشرقی افغان صوبے قندوز میں افغان حکام کے ساتھ ملاقات کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ "ہم پاکستان سے متعلق واضح اور دو ٹوک انداز میں موقف اپنائے ہوئے ہیں۔۔۔ ہم نے ابھی تک وہ تبدیلیاں رونما ہوتے نہیں دیکھیں۔"

ان کا مزید کہنا تھا، "ہم ان تبدیلیوں کی امید رکھتے ہیں، ہم سرحد پار کرنے والے دہشت گرد عناصر کے خاتمے کے لیے پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنے کی امید کرتے ہیں۔"

جنرل نکولسن نے کہا کہ انھیں یقین ہے کہ طالبان کی اعلیٰ قیادت پاکستان میں مقیم ہے جب کہ افغانستان میں طالبان کی صرف نچلے درجے کی قیادت موجود ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ وہ دیگر اعلیٰ امریکی حکام سے اتفاق کرتے ہیں کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسی 'آئی ایس آئی' کے دہشت گرد گروپ حقانی نیٹ ورک کے ساتھ تعلقات رہے ہیں۔

امریکہ نے 2012ء میں حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔

جنرل نکولسن کے اس تازہ بیان پر تاحال پاکستان کی طرف سے کوئی باضابطہ ردِعمل سامنے نہیں آیا۔ لیکن پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت یہ کہتی آئی ہے کہ ملک کی سکیورٹی فورسز نے اپنے ہاں تمام دہشت گردوں کے خلاف بلا امتیاز کارروائی کر کے ان کے ٹھکانوں کو تباہ کر دیا ہے اور وہ اپنی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دینے کے عزم پر قائم ہے۔

پاکستان یہ دعویٰ کرتا ہے کہ عسکریت پسند سرحد پار ان افغان علاقوں میں قدم جمائے ہوئے ہیں جہاں افغان حکومت کی عمل داری نہیں اور یہ دہشت گرد سرحد پار سے پاکستانی علاقوں میں بھی تخریبی کارروائیاں کرتے ہیں۔