امریکہ کے نمائندہ خصوصی برائے افغان مفاہمت زلمے خلیل زاد نے کابل میں افغان رہنماؤں سے ملاقاتیں کی ہیں۔ ان ملاقاتوں کا مقصد دو مغربی یرغمالیوں کی طالبان کی قید سے بازیابی اور امریکہ کے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کو دوبارہ سے شروع کرنا ہے۔
وائس آف امریکہ کی افغان سروس کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر طالبان ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ خلیل زاد کی ٹیم کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے لیے معاہدہ آخری مراحل میں ہے۔
افغان سروس کے مطابق جب اس معاہدے سے متعلق مؤقف حاصل کرنے کے لیے افغان طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد سے رابطہ کیا گیا تو ان کے پاس اس معاہدے کے بارے میں کوئی اطلاع موجود نہیں تھی۔
ایک افغان سرکاری عہدیدار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایک روز قبل پاکستان سے کابل پہنچنے کے بعد امریکی نمائندہ برائے افغان مفاہمت نے جمعرات کے دن صدر اشرف غنی سے ملاقات کی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ دونوں کے درمیان بات چیت امریکی شہری کیون کنگ اور آسٹریلوی شہری ٹموتھی ویکس پر مرکوز رہی۔
یاد رہے کہ دونوں یرغمالی تین برس سے زیادہ عرصے سے طالبان کی قید میں ہیں۔
امریکی اہل کاروں نے خلیل زاد اور اشرف غنی کی ملاقات کے بارے میں تفصیلات جاری نہیں کیں اور نہ ہی اس کی تصدیق کی ہے۔ تاہم امریکی ذرائع نے بتایا ہے کہ افغان امن اور مفاہمت کی تلاش کی کاوشوں میں یرغمالیوں کی واپسی ہمیشہ سے امریکی پالیسی کا محور رہی ہے۔
کنگ اور ویکس کابل میں ‘امریکن یونیورسٹی آف افغانستان’ میں تدریس سے وابستہ تھے۔ جب اگست 2016ء میں اسلحے کے زور پر انھیں کیمپس کے قریب سے اغوا کیا گیا۔
پاکستان میں مختصر قیام سے قبل خلیل زاد نے اتوار کو بھی افغان صدر سے ملاقات کی تھی۔ ملاقات سے پہلے نیوز کانفرنس کے دوران ایک اعلیٰ افغان اہل کار نے اس بات کی تصدیق کی کہ امریکی نمائندے نے امریکی پروفیسر کی رہائی کے حصول میں تعاون کے لیے کہا۔ جن کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انھیں صحت کے شدید مسائل لاحق ہیں۔
طالبان نے امریکی شہری کیون کنگ اور آسٹریلوی شہری ٹموتھی ویکس کی رہائی کے بدلے افغان جیلوں میں سنگین جرائم میں بند طالبان قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کر رکھا ہے۔
ان قیدیوں میں پھانسی کی سزا پانے والے انس حقانی بھی شامل ہیں۔ جو طالبان کے معاون سربراہ سراج الدین حقانی کے چھوٹے بھائی ہیں اور ساتھ ہی ان کے چچا مالی خان بھی ہیں۔
اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کا کہنا ہے کہ خلیل زاد نے پیر کے روز پاکستانی قیادت کے ساتھ افغان امن عمل کی موجودہ صورت حال سے متعلق گفتگو کی۔
افغان حکام کی جانب سے ایسے الزامات سامنے آتے رہے ہیں کہ پاکستان، طالبان رہنماؤں کو مبینہ طور پر اپنی سرزمین پر پناہ دیتا ہے۔ تاہم پاکستان ایسے تمام الزامات کی تردید کرتا ہے۔
پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ ان کے ملک نے اب تک 30 لاکھ افغان مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے۔ تاہم وہ اس امکان کو مسترد نہیں کرتے کہ ہو سکتا ہے کہ باغی ان کے علاقے میں چھپ جاتے ہوں۔