وسط مدتی انتخابات میں نوجوان ووٹروں کی اہمیت

وسط مدتی انتخابات میں نوجوان ووٹروں کی اہمیت

امریکی صدر براک اوباما نے کالجوں کے کیمپس میں کئی بڑے بڑے اجتماعات سے خطاب کیا ہے۔ ان کا مقصد یہ ہے کہ دو برس پہلے اُنھوں نے اپنی صدارتی انتخاب کی مہم کے دوران نوجوانوں میں جو جو ش و جذبہ بیدار کیا تھا اسے پھر زندہ کیا جائے۔ لیکن کمزور معیشت اور بے روزگاری کی بلند شرح کی وجہ سے لوگوں میں انتخابی سرگرمیوں میں خاص طور سے ڈیموکریٹس کے لیے جوش ٹھنڈا پڑ گیا ہے۔

2008ء میں 30 سال سے کم عمر کے ووٹرز نے ریکارڈ تعداد میں ووٹ ڈالے اوران میں سے تقریباً دو تہائی نے اپنا ووٹ اس وقت کے ڈیموکریٹک امیدوار براک اوباما کو دیا۔

Zach Howell کالج ریپبلیکن نیشنل کمیٹی کے صدر ہیں۔ انہیں دو سال پہلے کا وہ وقت یاد ہے جب ریپبلیکنز کے لیے کالج کیمپسوں میں ووٹ حاصل کرنا انتہائی دشوار تھا اُنھوں نے کہا ’’اس زمانے میں کیمپس پر ریپبلیکن ہونا پسندیدہ بات نہیں تھی۔ کوئی خود کو ریپبلیکن کہلوانا پسند نہیں کرتا تھا۔ 2008ء میں کچھ عرصے کے لیے قدامت پسند قسم کے نوجوان لوگ ایک طرح سے روپوش ہو گئے تھے۔ اس سال حالات بالکل بدل چکے ہیں۔ اب ریپبلیکن نوجوان خوب کام کر رہے ہیں اور خود کو فخر کے ساتھ قدامت پسند یا ریپبلیکن کہتے ہیں‘‘۔

رائےعامہ کے جائزوں کے مطابق اس بات کا امکان موجود ہے کہ ایوانِ نمائندگان میں اور شاید سینٹ میں بھی ڈیموکریٹس کی نشستیں کم ہو جائیں گی۔ صدر اوباما نوجوانوں سے کہہ رہے ہیں کہ وہ دو نومبر کو پورے ملک میں کانگریس کے انتخاب میں اور گورنر کے عہدوں کے لیے ڈیموکریٹک امیدواروں کو ووٹ دیں۔ حال ہی میں اوہایو اسٹیٹ یونیورسٹی میں تقریباً 35 ہزار کے اجتماع کو خطاب کرتے ہوئے مسٹر اوباما نے تسلیم کیا کہ وائٹ ہاؤس کے لیے انتخاب لڑنا حکومت کرنے کے مقابلے میں کہیں زیادہ پُر کشش تھا۔ انھوں نے کہا ’’اوراب ہم محض تبدیلی کی بات نہیں کررہے ہیں۔ اب ہم تبدیلی کے لیے سخت محنت کر رہے ہیں۔ کبھی کبھی اس کام میں مایوسیوں کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے ۔ ہم ہرروز آہستہ آہستہ تبدیلی لا رہے ہیں۔ یہ کوئی آسان کام نہیں ہے۔ یقین کیجیئے یہ کام بہت کٹھن ہے‘‘۔

صدر نے نوجوانوں سے کہا کہ وہ اس جذبے کو پھر سے زندہ کریں جس کا مظاہرہ اُنھوں نے2008 ء کے انتخابات کے دوران کیا تھا اور تبدیلی کے لیے کام کرتے رہیں۔

ہیتھر اسمتھ ایک غیر جانبدار تنظیم راک دی ووٹ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر ہیں۔ یہ تنظیم نوجوانوں کے ووٹوں کی رجسٹریشن اور سیاسی عمل میں ان کی شرکت کے فروغ کے لیے کام کرتی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ نوجوان ووٹرز اگلے مہینے کے وسط مدتی انتخاب سے قبل صدر اوباما کی توجہ کو شک و شبہے کی نظر سے دیکھتے ہیں’’ شروع میں نوجوانوں کا رد عمل کچھ اس قسم کا تھا کہ اتنے دن آپ کہاں رہے؟ ہم نے آپ کے لیے کام کیا آپ کے کہنے کے مطابق ہم نے آ پ کو ووٹ دیا ہم منتظر تھے کہ کوئی ہماری قیادت کرے، تو آپ تھے کہاں؟‘‘۔

اسمتھ کہتی ہیں کہ شک پرمبنی اس رویے کے باوجود نوجوان چاہتے ہیں کہ کوئی ان کی قیادت کرے۔ یہی وجہ ہے کہ کالجوں کے کیمپس میں ہزاروں نوجوان صدر کو سننے کے لیے آئے۔

لیکن پیو ریسرچ سنٹر کے ایک سروے کے مطابق 27 فیصد ڈیموکریٹک نوجوان کہتے ہیں کہ انہیں انتخابات میں دلچسپی ہے جب کہ 39 فیصد نوجوان ریپبلیکن ووٹرز کی توجہ انتخابات پر ہے۔

ریپبلیکن طالب علم لیڈرZach Howell کہتے ہیں کہ نوجوان ووٹروں کے لیے اہم ترین مسئلہ بے روزگاری ہے’’ سارا مسئلہ معیشت کا ہے۔ 20 فیصد نوجوانوں کو کوئی کام نہیں ملتا۔ وہ اپنے مستقبل کی طرف سے پریشان ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ایسی پالیسیاں بنائی جائیں جن سے وہ اپنے خوابوں کو عملی جامہ پہنا سکیں اوران کے خیال میں موجودہ صدر اور کانگریس کی پالیسیوں سے یہ مقصد حاصل نہیں ہو سکتا‘‘۔

وسط مدتی انتخابات میں نوجوان ووٹروں کی اہمیت

راک دی ووٹ کی ہیتھر اسمتھ بھی یہی کہتی ہیں کہ نوجوانوں کو اصل فکر اپنے لیے روزگار اور اپنے مستقبل کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ نوجوان لوگوں میں ووٹ ڈالنے کا رجحان عام امریکیوں کے مقابلے میں کم ہے اور اس کی کچھ مخصوص وجوہات ہیں’’ ان کے لیے یہ سارا عمل بالکل نئی چیز ہے۔ انہیں ووٹ ڈالنے کے لیے رجسٹریشن کرانی ہوتی ہے۔ 2008ء کے انتخاب کے بعد سے اب تک 90 لاکھ افراد کی عمر 18 برس ہو چکی ہے۔ ان سب کی رجسٹریشن ہونا ضروری ہے لیکن ہمارے پاس ایسے انتظامات نہیں ہیں کہ یہ کام آسانی سے انجام دیا جا سکے‘‘۔

کالج ریپبلیکن صدر Zach Howell کہتے ہیں کہ یہ غلط فہمی عام ہے کہ نوجوان لوگ ڈیموکریٹک پارٹی کے امیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں۔ ’’تاریخی لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ صحیح نہیں ہے۔ نوجوانوں نے رانلڈ ریگن کو ووٹ دیے، جارج ایچ ڈبیلو بُش کو ووٹ دیے، بِل کلنٹن کو بہت سے نوجوانوں نے ووٹ دیے لیکن پھر2000 ء میں واپس جارج ڈبیلو بش کو نوجوانوں کے ووٹ ملے۔ اوباما کو بہت زیادہ نوجوانوں نے ووٹ دیے تھے لیکن اب پھر پانسہ ریپبلیکن پارٹی کے حق میں پلٹ رہا ہے‘‘۔

جیسے جیسے دو نومبر کی تاریخ قریب آ رہی ہے دونوں پارٹیاں یہ امید کر رہی ہیں کہ وہ نوجوانوں کو اپنے امیدواروں کے حق میں ووٹ دینے پر آمادہ کر سکیں گی۔