حالیہ امریکی صدارتی انتخابات کی مہم اختتام پر ہے۔ اگلے کچھ گھنٹوں میں امریکی عوام اپنا 45واں صدر منتخب کرنے کے لیے ووٹ ڈالیں گے، جبکہ شاید اگلے 24 گھنٹوں میں نئے امریکی صدر کا فیصلہ بھی ہو جائے۔ تقریباً پچھلے ڈیڑھ سال سے جاری اس مہم میں دونوں صدارتی امیدواروں کی ذاتی زندگی کے ساتھ ساتھ معیشیت، تارکین وطن اور امریکی مسلمان نمایاں موضوع رہے۔
ہم نے دو کامیاب امریکی مسلمانوں سے حالیہ الیکشن کے بارے میں بات کی۔
سلمان خان ایک تعلیم دان ہیں، جو دنیا بھر میں مشہور ’آن لائن‘ تعلیمی ادارے، ’خان اکیڈمی‘ کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔حالیہ الیکشن کے بارے میں بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’’میرے خیال سے اس الیکشن میں کچھ غیر دانشمندانہ باتیں کہی گئی ہیں۔ لیکن، پھر بھی میں ایک روشن پہلو دیکھتا ہوں۔چونکہ میں یہاں پیدا ہوا۔ پلہ بڑھا ہوں، تو میرے خیال سے جو اشتعال انگیز باتیں کی گئیں ہیں وہ اس ملک کی نمائندگی نہیں کرتیں‘‘۔
بقول اُن کے، ’’جہاں تک میرے تجرے کا تعلق ہے، میں دیکھ رہا ہوں کہ یہ ملک مسلسل آگے بڑھ رہا ہے۔ یہ حقیقت کہ ہمارے موجودہ صدر کا نام براک حسین اوباما ہے، اس چیز کی غمازی کرتا ہے۔ اور یہ جو باتیں ہیں وہ شاید اس بتدریج ارتقا کا ردعمل ہے‘‘۔
دلاور سید، ’سلیکون ویلی‘ میں ایک کامیاب کاروباری شخصیت ہیں جو ایک امریکی مسلمان کے طور پر وائٹ ہاؤس کے ’ایشین امریکن کمیونٹی‘ کے لیے قائم مشاورتی کمیشن کے ساتھ کام کر چکے ہیں۔
ان کے مطابق، ’’ اگرچہ حالیہ الیکشن کی مہم اس طرح کی رہی ہے جس نے امریکہ کو تقسیم کیا ہے، لیکن اسے ایک ایسے موقع کے طور پر دیکھتا ہوں جو ہمیں، مسلمانوں اور تارکین وطن کو ایک کمیونٹی کے طور پر متحرک اور اکٹھا کر سکتی ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ لوگ بڑی تعداد میں باہر نکلیں گے اور ووٹ کریں گے؛ اور یوں وہ اس نظام کا حصہ بنیں گے‘‘۔
واشنگٹن میں قائم تنظیم، ’کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز‘ کے مطابق، حالیہ انتخابات میں 10 لاکھ امریکی مسلمان اپنا حق رائے دہی استعمال کریں گے، جبکہ ’پیو ریسرچ‘ کا کہنا ہے کہ منگل آٹھ نومبر کو ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات امریکی تاریخ کے ’’متنوع ترین انتخابات ہوں گے جس میں 31 فیصد ووٹرز غیر سفید فام ہیں‘‘۔
وڈیو رپورٹ دیکھئیے:
Your browser doesn’t support HTML5